Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Char Admi

Char Admi

چار آدمی

لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک مرحوم ایم۔ این اے پرویز ملک صاحب لاہور میں ایک جاب کے دوران چند ماہ میرے باس رہے۔ ان سے براہِ راست بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ یورپی یونین کے نمائندوں اور جرمن چانسلر کے ساتھ انکی موجودگی میں بات کرنے ان کو پریزنٹیشن دینے کا اعتماد انہوں نے مجھے دیا۔ میری عمر اس وقت 23 سے 24 سال تھی۔

ایک دفعہ انہوں نے مجھے اپنے گھر بلایا بڑی لمبی نشست رہی اور بہت سے قیمتی اسباق دیے۔ جو انکی زندگی کے تجربات تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کتب میں کیا پڑھوں؟ انہوں نے کہا بڑے آدمیوں کی سوانح عمریاں پڑھا کرو انکی عادات کو لکھ کر ان پر عمل شروع کرو ایک دن تم خود بھی بڑے آدمی بن جاؤ گے۔

مجھ سے انہوں نے پوچھا کہ تمہارے ابا جی کیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا سعودیہ درزی کا کام کرتے ہیں۔ کہنے لگے تم ایک گاؤں سے یونیورسٹی آئے ہو۔ میٹرک، ایف اے، بی اے کے بعد گاؤں کے کسی سیاسی ورکر نے ملازمت دلوانے کی کوشش نہیں کی؟ میں نے کہا دو دفعہ میرے دادا جی کو کہا گیا کہ خطیب کو واپڈا یا آرمی پولیس وغیرہ میں بھرتی کروا دیتے ہیں۔ واپڈا میں اسسٹنٹ لائن میں اور پولیس یا فوج میں سپاہی وغیرہ۔ تھوڑی تعلیم کے ساتھ یہی ممکن تھا۔

بولے پھر ہاں کیوں نہ کی؟ میں نے کہا مجھے اس زمانے میں پیسوں کی کوئی کمی نہ تھی۔ ان ملازمتوں کی تنخواہ آٹھ دس ہزار کے آس پاس تھی۔ اور میرے اکاؤنٹ میں تو لاکھوں روپے ہوتے تھے۔ بولے قسمت اچھی تھی بیٹا تمہاری جو بچ گئے۔ پیسے نہیں بچاتے مقدر بھی کوئی چیز ہے۔ ورنہ اب تک افسروں کو سیلوٹ کرتے وہیں ضائع ہو چکے ہوتے۔

انہوں نے بتایا کہ حاکم کبھی بھی محکوم کو خوشحال نہیں دیکھنا چاہتا۔ ہر محلے گاؤں قصبے شہر میں ایک چین چلتی ہے۔ کہ محنت کشوں اور مزدوروں کو مالی طور پر مستحکم ہوکر اوپر آنے سے روکنا ہے۔ یہ خوشحال ہوگئے تو ہماری اجارہ داری اور چوہدراہٹ کو تسلیم نہیں کریں گے۔ اپنے حقوق کی بات کریں گے اور ہمارا تسلط کمزور کریں گے۔ انہوں نے پوچھا کہ آپکے علاقے میں کونسی برادری سیاست میں ہے؟ میں نے کہا جب سے پاکستان بنا ہے تین برادریاں ہی باری اور نام بدل کر وہاں سے الیکشن لڑتی ہیں۔ جٹ رانے اور گجر۔ جٹ اور رانے ایم این اے کے لیے لڑتے ہیں۔ اور گجر ہمیشہ ایم پی اے بنتے ہیں۔ بولے کیا وہاں کوئی اور برادری نہیں بستی؟ میں نے کہا سینکڑوں برادریاں بستی ہیں۔ بولے ان کو اوپر آنے سے روکا جاتا ہے۔ کسی بھی طرح جیسے بھی روکا جا سکے۔ اور ایسا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوتا ہے۔

گاؤں کی سطح پر چوہدری صاحب یا چیئرمین ناظم کونسلر وغیرہ کسی محنت کش کے بچے کو چوکیدار سپاہی مالی نائب قاصد وغیرہ اس لیے لگوا دیتے ہیں کہ آگے نہ پڑھے اور ہمارے لیے کل کو خطرہ نہ بنے۔ ذات برادری، رنگ نسل، حسب نسب، قوم قبیلہ، زمیندار غیر زمیندار کمی کمین وغیرہ جیسے الفاظ اور جملوں کا استعمال کرکے محنت کشوں اور مزدوروں کو احساس کمتری کا احساس دلایا جاتا ہے۔ ان کو چھوٹا اور خود کو بڑا انکے سامنے ہی کہا جاتا ہے۔ اور پاگل ہیں وہ لوگ جو انکا حقہ ڈالنے اب بھی جاتے ہیں۔ انکی پواندی بیٹھتے ہیں اور نسل در نسل ایک ہی خاندان کی خوشامد کرکے غلامی کی زنجیریں تاحیات پہنے رہتے ہیں۔

میں نے کہا آپ ایم این اے ہیں۔ اگر وہ ہمیں اوپر نہیں آنے دیتے تو آپ بھی ان کو انکی سطح سے تو اوپر نہیں آنے دیتے ہونگے؟ بولے بلکل ایسا ہی ہے۔ ان کو سرکاری ٹھیکے دیے جاتے ہیں۔ انکے کام کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی گاؤں سے ہم تک آنے والے کو ان سے ہوکر آنا پڑتا ہے۔ کہ مقامی لوگ انکے احسان مند رہیں۔

میں نے کہا وہ اگر آپ سے وفاداری نہ کریں تو آپ کیا کرتے ہیں؟ بولے وہی جو وہ دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں۔ انکی اگلی نسل کے سر سے پگ اتار لی جاتی ہے۔ انکے بچوں کو چھوٹی موٹی سرکاری ملازمت میں ڈال دیا جاتا ہے۔ تمہاری جب سرکاری ملازمت ہوئی تو تم دیکھو گے کہ درجہ چہارم یا پولیس میں سپاہی میں نوے فیصد چوہدری ہونگے۔ زمیندار ہونگے۔ انکے وڈے وڈیرے اپنے گاؤں کے کرتا دھرتا رہے ہونگے۔ یہ نوکری انکے شایان شان نہیں ہوتی مگر جب تک ان کو سمجھ آتی ہے کہ انکے ساتھ ہوا کیا ہے۔ بہت دیر ہو چکی ہوتی۔

انہوں نے بتایا کہ اب اگلے بیس پچیس سالوں میں سیاست بہت بڑی کروٹ لے گی۔ قیام پاکستان سے چلی آنے والی یہ پریکٹس اب زیادہ نہیں چلے گی۔

محنت، ایمانداری، تعلیم، راست گوئی اور شعور کے بل پر لوگ اپنے حالات بدلیں گے۔ بند کمروں کے فیصلے باہر آئیں گے اور کچھ بھی چھپا نہیں رہے گا۔ الیکشن لڑنا حلقے میں جانا بہت مشکل ہوجائے گا۔ الیکشن کمپین میں نالیاں گلیاں بنانے اور سڑکوں کے وعدے کرنا اب ماضی بن چکا ہے۔

انہوں نےکہا تھا کہ ترقی کرنے والے اور اوپر جانے والے کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ وہ جس مرضی بیک گراؤنڈ سے آیا ہو۔۔ اگر وہ متنوع موضوعات پر لکھی گئی کتابیں پڑھنے والا ہو، مشکلات کا سامنا کرنے والا ہو اور تنقید کرنے والوں سے دل برداشتہ نہ ہوکر اپنا سفر جاری رکھنے والا ہو۔ اور اپنا ہر دن گزرے کل سے بہتر کرنے والا ہو۔ مرعوب نہ ہونے والا ہو، ہر کسی کو جائز مقام دینے والا ہو اور خوشامدی نہ ہو۔

چند دن سے محترم ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب کی یہ تصنیف زیر مطالعہ ہے۔ اور مرحوم پرویز ملک صاحب سے سنی کئی باتیں اس کتاب میں بھی لکھی مل رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انکے درجات بلند عطا فرمائے کیا ہی بھلے انسان تھے۔

آپ بھی یہ کتاب ضرور پڑھیے گا۔ چار بڑے آدمیوں کی سوانح عمریاں ہیں۔۔ بہت سے لائف لیسن ملیں گے۔

Check Also

Ayaz Melay Par

By Muhammad Aamir Hussaini