Ye Kiski Aahon Ka Asar Hua Hai?
یہ کس کی آہوں کا اثر ہوا ہے؟
جب سے دنیا کرونا وائرس کی وباء میں مبتلاء ہوئی ہے، ہم نے اپنے کسی مضمون کا عنوان کرونا وائرس پر نہیں رکھا جبکہ مضامین کا مواد کرونا وائرس پر ہی رہا ہے کیونکہ اس وقت دنیا صرف اور صرف ایک ہی مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کر رہی ہے بلکہ سلجھانے کی نہیں اس مسئلے کیساتھ اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اپنے ملک کے اخبارات سے یہ سوال ہے کہ کیا کرونا وائرس کا نام عنوان میں لکھنا ضروری ہے جب ہی ادارتی صفحے پر جگہ مل سکے گی ہم نے کرونا وائرس کا نام نا لکھ کر اپنے مضامین کیساتھ شائد زیادتی کرلی کہ ہمارے مضامین اپنی جگہ کھوتے چلے گئے ہیں۔ جبکہ ہمارا مقصد عوام میں سے اس نام کے لئے جانے کی وجہ سے جو خوف و ہراس اور نفسیاتی مسائل پیدا ہونے کے خدشات ہیں ان سے دور رکھنے کی کوشش ہے، نفسا نفسی پھیلانے سے گریز کرنے کی کوشش ہے۔ یعنی ہم اپنی بات بھی کہہ دیں اور ماحول پر منفی اثرات بھی مرتب نا ہوں۔
ہم انسان بہت جلد یکسانیت کا شکار ہوجاتے ہیں، ہم میں سے کچھ انسانوں نے اس بات کو سمجھ لیا اور اسے اپنے کاروبار کا حصہ بنا لیاجس کی وجہ سے جدیدیت کے اس دور میں مسلسل بدلائو آتا رہتا ہے دریافت کی جانے والی اشیاء کے نئے نئے ورژن وقفے وقفے کیبعد شائع کئے جاتے ہیں، یعنی انسان، اپنے ہی جیسے انسانوں کی نفسیات سے کھیل رہا ہے۔ انسان جب تک کسی مشکل میں گرفتار نہیں ہوتا اسے انسانیت کا خیال نہیں آتا جیسے ہی وہ کسی برے وقت میں گرفتار ہوتا ہے وہ دوسروں کو انسانیت کا ناصرف درس دیتا سنائی دیتا ہے بلکہ انسانیت کے نام پر مدد کی اپیل بھی کرتا دیکھائی دیتا ہے۔ وقت کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ ٹہرتا نہیں ہے جیسا بھی ہو گزر جاتا ہے بس ہمارے آس پاس رہنے والوں میں فرق کو واضح کرتا چلا جاتا ہے ہماری آنکھوں سے پردے اٹھاتا چلا جاتا ہے۔ آج دنیا پھر ایک ایسی ہیبت ناک یکسانیت کا شکار ہے، کرونا نامی وائرس نے ساری دنیا کو ویران کر کے رکھ دیا ہے، اب یہاں کرونا لکھا جائے یا پھر اپنے قدرت کی کاری گری لکھا جائے کہ کتنی آسانی سے ساری کی ساری دنیا کو ویران و سنسان کر کے رکھ دیا ہے، اور محسوس ہورہا ہے کہ جیسے فضاءوں میں صدائیں گونج رہی ہوں کہ بتائو کائنات کا بادشاہ کون ہے بتائو تمھاری اس رنگین دنیا کا بادشاہ کون ہے۔ لیکن یہ صدائیں کہاں سنائی دینگی کیونکہ سب کو تو اپنی اپنی زندگیوں کی پڑی ہے اور ایسے حالات میں بھی انسان اپنے خالق سے رجو ع کرنے سے باز ہے۔ یہاں ہم دنیا کی کیا بات کریں ہمارے مسلمان بھائی بھی ایسے وقت میں، وقت کو بدلنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف حالات کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ کہیں انسانیت، ہادی انسانیتﷺ کی بیعت نا کرلے کلمہ حق لا الہ اللہ محمد رسول اللہ نا پڑھ لے مختلف زاوئے پیش کئے جا رہے ہیں، انسان کو سچی توبہ کے قریب ہونے سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے اور دنیا کا دھیان بانٹنے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں۔ جس کا ایک منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ کرونا نامی وائرس کو اب وباء کی بجائے انسان کی تخلیق کردہ وائرس بتایا جارہا ہے جیساکہ کمپیوٹر وغیرہ کیلئے تیار ہوتا رہا ہے۔ اہل نظر کیلئے قابل غور بات یہ ہے کہ مان بھی لیا جائے کہ یہ وائرس انسان نے بنایا اور یہ بھی مان لیتے ہیں کہ کسی خاص مقصد کیلئے بنایا لیکن کیا وہ انسان یا ادارہ یا ملک اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا یا پھر خود بھی اس کی زد میں بری طرح سے آگیا گوکہ ابھی اس وائرس کی تباہ کاریاں اپنے عروج پر ہیں ابھی تمام انسانوں کو اس بات پر مکمل دھیان دینا چاہئے کہ کس طرح سے اس وائرس کا زور توڑا جائے کس طرح سے دنیا کو بدترین حالات کی نظر ہونے سے بچایا جائے اور کس طرح سے انسانیت کی بقاء کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ محسوس ہوتا ہے لوگ بغیر ہی کسی مقصد کے کوئی نیا مقصد گڑھ لیتے ہیں اور اپنی ذاتی رائے جوکہ معاشرے میں خوف و ہراس پھیلاسکتی ہے عام کرنے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔ ایک عام انسان دنیا کے حصول میں اسقدر مگن ہے کہ اسے ایسے حالات میں بھی صرف اپنے لئے سہل پسند وقت گزاری کے سامان کی چاہ ہے۔ یہ بات بھی عام دیکھائی دے رہی ہے کہ کوئی بھی مرنے کے خوف میں مبتلاء نہیں ہے، ایک وجہ تو ضرورتیں ہیں اور دوسری وجہ وقت کی نزاکت سے کیا فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
دنیا میں اپنے آپ کو طاقت کا منبہ کہلوانے والے اور اپنی طاقت کمزوروں پر ظلم کرکے دیکھانے والے، جو سراٹھائے اس پر مختلف پابندیاں لگانے والے امریکہ کی حالت پر آج ذرا غور کر لیجئے۔ دنیا کی تمام تر وسائل پر قبضہ کر کے بیٹھنے والا ملک اور جس نے دنیا کے تمام بین الاقوامی اداروں کو بھی اپنا پابند کر رکھا ہے غرض یہ کہ ز میں سے لیکر کائنات کے دیگر سیاروں تک اپنی بادشاہت نما کا دعویدار آج گھٹنوں کے بل بیٹھا دیکھائی دے رہا ہے۔
گزشتہ دہائیوں میں زندگی اپنی بقاء کی جنگ لڑتی دیکھائی دی جسکی سب سے بڑی وجہ دنیا میں طاقت کا عدم توازن ہے۔ جس نے اپنے آپ کو طاقت ور بنا لیا اسنے اپنی بقاء کیلئے کمزور پر ظلم کرنا شروع کردیا اور مخصوص اہداف کے حصول کیلئے ظلم کی حدوں کو بھی پار لیا۔ دنیا نے جاپان پر گرائے گئے ایٹم بم کو شائد بھلا دیا، جس کہ نتیجے میں جاپان ابھی تک نقصان اٹھا رہا ہے یعنی یہ نقصان نسلوں میں منتقل ہوا ہے، پھر اس سلسلے نے رخ بدلا اور طاقت کے نشے میں دھت ممالک نے فلسطین، کشمیر، شام، افغانستان، لیبیاء اور مصر جیسے ممالک کو بربریت کا نشانہ بنانہ شروع کیا اور ان ملکوں میں اکثر کو تو کھنڈرات میں تبدیل کر کے رکھدیا ہے، اختیارات اور وسائل پر قبضہ کرنے کیلئے کی جانے والی جنگیں انسانیت کو تہہ و بالا کئے جا رہی ہیں۔ شام میں ہونے والے انسانیت سوز مظالم، کشمیر میں کیا جانے والا بد ترین لاک ڈائون اور فلسطین میں نہتے فلسطینیوں کی زندگیاں اجیرن کرنے والے کیا اب سکون سے بیٹھیں ہیں۔ ہم سب یہ خوب جانتے ہیں کہ مظلوم کی آہ دکھی دل کی آہ آسمانوں کو چیرتی ہوئی رب کائنات کے حضور پہنچتی ہے اور پھر ان آہوں کی سنوائی بھی خوب ہوتی ہے۔ کچھ وقت پہلے ہونے والے دنیا میں مظالم اپنی حدوں کو چھونے لگے تھے تو کتنی ہی آہیں ہر لمحے میں آسمانوں کیجانب اٹھتی رہیں کسی نے اس کی پروا نہیں کی۔ اب یہ کرونا وائرس ہے یا پر مظلوموں کی آہوں کا نتیجہ۔ شائد ابھی وقت باقی ہے اپنی کوتائیوں کی اپنی نافرمانیوں کی اور خالق کائنات کی حقانیت کو تسلیم کرنےکا، کہیں ایسا نا ہوکہ یہ نا دیکھائی دینے والا کرونا ہمیں بھی اس دار فانی سے غائب کردے۔