Mulk Ki Khatir Ghair Siyasi Ho Jayen
ملک کی خاطر غیر سیاسی ہوجائیں
سفر کرنا آپ کے بس میں ہے، سفر آپ کی پسند کا بھی ہوسکتا ہے لیکن آپ پہنچتے وہاں نہیں جہاں کے لئے آپ نے سفر شروع کیا ہوتا ہے آپ وہاں پہنچ جاتے ہیں جہاں قدرت آپکو دیکھنا چاہتی ہے۔ ہمارے ارد گرد بہت سارے ایسے لوگ گھومتے پھرتے رہتے ہیں جن کے سفر کا آغاز کچھ اور تھا اور وقت اور حالات نے ان کا راستہ تبدیل کردیا۔ جیسے کہ آپ بننا کچھ چاہتے ہیں اور عملی زندگی میں پہنچ کر کچھ اور بن چکے ہوتے ہیں۔
قدرت کی یہ ساری کاروائی کبھی تو بہت ثبق ہوتی ہے اور کبھی کبھی ہماری ضد میں خوب رگڑا لگوادیتی ہے بہت کم لوگ اس سارے عمل سے آگاہی کےساتھ نکلتے ہیں، اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو کسی پانی میں ڈوبی لاش کی طرح ہچکولے کھاتے ساحل پر پہنچ جاتے ہیں۔ گنتی کے افراد ایسے اہل ہوتے ہیں جو وقت اور قدرت کے سامنے ایسے سر خم تسلیم کرتے ہیں کے ان کی رضا کی بدولت انہیں آگاہی دے دی جاتی ہے اور ہر بدلتے ہوئے لمحے سے آشنا ہوتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کے وہ اپنی اپنی منزلوں پر پہنچ جاتے ہیں۔
منزلوں پر پہنچ جانے سے مراد قدرت انہیں کسی ایسی مسند پر براجمان کرا دیتی ہے جہاں سے وہ فیض و آگاہی و شعور بلکہ قدرت کے آلہ کار بنادیئے جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لیجئے کہ یہ قطعی ضروری نہیں ہے کہ وہ مسند کسی آستانے یا ہجرے میں ہی ہوگی یہ کسی بھی ادارے میں موجود ہوسکتی ہے، یہ اقتدار میں بھی ہوسکتی ہے۔ یہ تپتی سڑک پر ننگے پیر چلنے والا بھی ہوسکتا ہے اور اللہ کی رضا سے ٹھنڈی گاڑیوں میں گھومنے والا بھی ہوسکتا ہے۔ اشرف المخلوق ہونے کا زعم بھی ہر کسی کوئی نہیں ملتا اور جسے مل جاتا ہے وہ کہیں ودر نکلنے کی جستجو میں لگ جاتا ہے۔
یونانی فلسفی نے بتایا کہ معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے، حکیم الامت نے فرمایا" فرد قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں "۔ فرد معاشرے کی بنیادی اکائی ہے وقت اور حالات نے افراد کو مختلف سوچنے کے زاوئے مہیا کئے، جہاں کسی ایک سوچ یا نظرئیے پر ایک سے زیادہ افراد اکھٹا ہوگئے وہاں ایک مخصوص نظرئیے کا گروہ تشکیل پاگیا، وقت گزرتا جارہا ہے نا نظریوں میں کمی آرہی ہے اور نا ہی جماعتوں کی تشکیل میں کمی آرہی ہے۔
کوئی طاقت کا ماننے والا تھا جس نے طاقت کے بل بوتے پر کوئی کارنامہ دیا تو وہ طاقت کا غلام ہوگیا اور اس کی طاقت سے مرعوب ہونے والے اس کی جماعت سے وابستہ ہوگئے۔ ایسے ہی جماعتوں کی تشکیل ہوتی چلی گئی اور نظرئیے کی وضاحتیں وقت کے ساتھ ساتھ ہوتی چلی جارہی ہیں۔ لیکن انسان کسی ایک نظرئیے کے تحت آگے بڑھنے سے قاصر رہا ہے۔ دو چیزیں اہم ہیں ایک تو آپ جس نظرئیے کے پیروکار ہیں آپ اس سے الگ دیکھنا گوارا نہیں کرتےاور کہیں سے اپنے نظرئیے کے بارے میں کچھ منفی علم ہو بھی جائے تو فوراً اس کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیتے ہیں جو یہ سمجھتی ہے کہ آنکھیں بند کرلینے سے بلی اسے نہیں دیکھ پائے گی۔
شائد یہ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہوتا اور جس کی کوئی جگہ نہیں ہوتی وہ ہروقت بکنے کیلئے تیار رہتا ہے۔ اللہ تعالی نے کائنات کو سجانے کے بعد انسان کی رہنمائی اور تربیت کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کو مبعوث کیا جس کی وجہ یہ تھی کے وہ انسانوں کو اپنی بڑائی سے روشناس کرائیں اور شکرگزاری کی طرف متوجہ کریں۔ سمجھنے والوں کی تعداد ہمیشہ سے ہی قلیل ہی رہی اور لامحالہ قیامت در قیامت دنیا دیکھتی رہی۔
معاملات انفرادی ہوں یا اجتماعی ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ دور حاضر نشر واشاعت کا دور ہے اور ناشر اس بات کی فکر بعد میں کرتا ہے کہ اس تشہیر سے کیا منفی اور مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟ بس جلد از جلد نشر کردیتا ہے۔ دنیا معلومات کے ایک نا ختم ہونے والے طوفان میں غوطہ زن ہے اور اس صحیح غلط کی تفریق سے ماورا ہوچکی ہے، بس آپ کہہ دیجئے پھر دیکھئے۔ آج کسی سے کچھ چھپانا ناممکن سی بات ہے یہاں تک کے مخصوص لوگوں کی سوچوں کی تشہیر بھی کر دی جاتی ہے اور وقت گزرنے کےساتھ کوئی پوچھتا بھی نہیں کے کیا کہا گیا تھا اور کیوں کہا تھا؟
پاکستان اللہ رب العزت کی طرف سے ایک انمول تحفہ ہے جس کی مدد سے اللہ تعالی نے اپنے دین کی ترویج کا کام لینا ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ پاکستان میں عوامی طرز عمل بھی کسی نافرمان قوم سے جدا نہیں ہے وقت اور حالات کے پیش ِ نظر اپنا نظریہ بدل لیتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اپنے دین پر آنےوالی آنچ کی بھی فکر نہیں کرتے۔ یہ اپنی بھوک کے ہاتھوں اتنے مجبور ہوجاتے ہیں کہ بھول جاتے ہیں کہ کیسی کیسی قربانیاں اس ملک کو خود مختار ریاست بنانے کیلئے دی گئیں۔
یہ اللہ کے بندے مفادات کو سجدہ ریز ہوجاتے ہیں، یہ زمینی خداءوں کو خدا کو ماننے والے بھلا اپنے رب کے سامنے کیسے کھڑے ہوجاتے ہیں ؟ یہ کیوں زمینی حقائق کی بات کرتے ہیں؟ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم جس رب تعالی کے بندے ہیں زمین بھی اسی کی ہے اور سارے حقائق بھی اسے سے جڑے ہوئے ہیں؟ یہ کس خوف کی غلامی کرنے کے عادی ہوچکے ہیں کہ روشنی ہوجانے کے باوجود آنکھیں نہیں کھولتے اور اپنی اپنی سوچ کے زندانوں سے نہیں نکلتے؟
کیا پاکستان کبھی بھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکے گا؟ یہ لوگ اسی طرح سے عوام کو زمینی آقاءوں سے مال و دولت لے کر اس کے غضب سے ڈراتے رہیں گے۔ کیا یہ اپنی نسلوں کو غلامی سے چھٹکارا دلانے کیلئے تیارنہیں ہیں؟ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے ہی دور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی تین تین دفعہ کے اقتداروں کو ایک جگہ کر کے بھی پاکستان کو اتنی پذیرائی دنیا میں نہیں ملی۔ آج جبکہ وقت پاکستان کا ساتھ دینے کیلئے تیار کھڑا ہوا ہے تو پاکستان کے اندرونی لوگ تقسیم تقسیم در ہوئے جارہے ہیں۔
حزب مخالف صرف اپنی بات منوانے کیلئے کس درجہ گر سکتی ہے؟ اس کی بھی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ مان لینا کے پاکستان تحریک انصا ف کے اقتدار کا سفر ختم ہو گیا ہے تو ایسا قطعی نہیں ہے، خان صاحب ایک کھلاڑی ہیں اور کھلاڑی وہی ہوتا ہے جو کھیل کے آخری لمحے تک ہار جیت کو واضح نہیں ہونے دیتا۔ وہ پاکستان اور پاکستانیت کی شناخت کیلئے جہاں تک جا سکتا وہ جائے گیا۔ ابھی تو دیکھنا ہے کہ اگلی حکمت عملی کیا سامنے آتی ہے؟
حقیقت میں فیصلہ تو ہم عوام نے کرنا ہے کہ آخر کب تک ہم بطور قوم غلامی کا طوق گلے میں ڈالے رہیں گے؟ یہ جو لوگ اپنی جیت کا جشن منا رہے ہیں یہ قدرت کی طرف سے ان کے لئے عوام کے سامنے کھل کر سامنے آنے کا موقع ہے، یہ عوام کو اپنے بھکاری ہونے کا یقین دلانے کی ہر ممکن کوشش کرینگے جو اس بات کی گواہی ثابت ہوگی کے آنے والا وقت حق کا ہوگا پاکستان کا ہوگا۔
بس ذرا سا صرف پاکستانی ہوکے سوچنا۔ ہم بھی کہیں ویسی کسی نافرمان قوم کی طرح نا ہوجائیں جہاں انصاف امیر کیلئے ہوتا تھا اور سزائیں غریبوں کو ملا کرتی تھیں۔ یہی وہ راستے ہیں جن پر سفر کرنا آپ کا کام ہے منز ل پر پہنچانے والا کہیں اور بیٹھا ہے اور وہ منزل تک پہنچا کر ہی چھوڑتا ہے۔