Kya Aisa Bhi Ho Sakta Hai?
کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے؟
وقت کسی بپھرے ہوئے سمندر کا رویہ اختیار کر چکا ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا کے حالات غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ جیسا سوچا تھا ویسا تو ہوا نہیں اور ویسا ہو گیا جس کا خیال تک نہیں کیا گیا، دنیا ایسی کیفیت سے دو چار محسوس کی جا رہی ہے۔ مادہ پرستی کا دور دورہ ہے ہر کوئی اپنے اپنے حساب کتاب کے مطابق لائحہ عمل ترتیب دے کر بیٹھا ہوتا ہے جبکہ قدرت کا اپنا طے شدہ اور قابل عمل پروگرام ہوتا ہے جو ہو کر رہتا ہے۔
قدرت اگر کسی کو ذلت دینے پر آ جائے تو اس کے اچھے سے اچھے کام کو بھی اتنا خراب پیش کیا جاتا ہے کہ سب کرنے والے کے اوپر گر جاتا ہے اور اسی طرح اگر قدرت عزت دینے کا طے کر لے تو کسی بھی قسم کا کام ہو اسے اچھا ترین بنا دیا جاتا ہے۔ دنیا ابھی غیر یقینی کی انتہائی صورتحال سے گزر کر آئی ہے یعنی کچھ ہی وقت گزرا ہے کہ دنیا کورونا جیسی موذی وباء نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اور واضح طور پر محسوس کیا جا رہا تھا کہ گویا قیامت یا پھر قیامت کا نمونہ قدرت نے انسانیت کو دکھا دیا ہے۔
اب اس کی پکڑ سے کافی حد تک آزادی مل چکی ہے لیکن ابھی بھی خبریں آ رہی ہیں کہ کورونا اب کوئی اور شکل اختیار کر کے واپس آنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ کیا وہ وقت آن پہنچا ہے کہ یہ مان لیا جائے کہ دنیا کی تمام تر مشکلات کا سبب بننے والی کوئی ایک دنیاوی طاقت ہے جو اپنے اثر و رسوخ اور اپنی موجودگی ہر ملک کے داخلی اور خارجی معاملات میں رکھنا چاہتی ہے؟
یوں تو دنیا اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ امریکہ وہ ملک ہے جو ساری دنیا میں اپنی قائم کردہ اجارہ داری کی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ امریکہ کو ایسا کرنے کی ضرورت افغانستان میں عبرت ناک شکست پر پردہ ڈالنے کے لئے کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف پچھلی دو دہائیوں سے سب سے بڑے حلیف بلکہ اگلی صفوں میں کھڑے ہو کر سارا خسارا برداشت کرنے والے ملک پاکستان کا ایک دم سے اعلانیہ ساتھ چھوڑ دینا، امریکہ کے لئے کسی بہت بڑے دھچکے سے کم نہیں تھا۔
جس کی دھمک ان کے اعلیٰ اعوانوں تک بھی پہنچ گئی، اس اعلان کی توثیق در توثیق ہوتی چلی گئی اور پاکستان نے نا صرف امریکی مطالبات ماننے سے انکار کر دیا بلکہ الٹے اپنے مطالبات رکھ دئیے۔ ان مطالبات کو تسلیم کرنا امریکہ کے لئے اس لئے ضروری ہو گیا کیونکہ اس کی افواج کو افغانستان سے نکلنے کا محفوظ راستہ انہی شرائط پر ملنا تھا۔ محفوظ راستہ مل گیا ساری فوج رات کی تاریکی میں نکل گئی اس طرح نکلنے کا طریقہ یقیناََ پاکستان نے بتایا ہو گا۔
امریکہ نے جان کی امان پائی اور وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پاکستان کی ہر شرط تسلیم کر لی لیکن یہ سب اس کے مزاج کے خلاف ان کی حکمت عملی سے متصادم ہوا تو کسی نا کسی طرح اور جلد از جلد اس کا بدلہ لینا ضروری تھا اور اس کا بہترین بدلہ یہی ہو سکتا تھا کہ اس صاحب اقتدار کو زیر کر دیا جائے جس نے حال ہی میں (امریکہ) کو جھکنے پر مجبور کیا ہے۔
اب جو کچھ ہوا ہے وہ کسی سے بھی چھپا ہوا نہیں ہے اور ویسے بھی آج ہم سماجی ابلاغ کے دور میں ہیں، خبر کتنی ہی بڑی کیوں نا ہو یا کتنی ہی معمولی کیوں نا ہو سب کو سماجی ابلاغ پر یکساں اہمیت دی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹانے میں خارجی دخل اندازی تقریباً ثابت ہو چکی ہے اور اس خارجی دراندازی کو راستہ دینے والے اور ان کے آلہ کار بننے والے بلکہ ایک اصطلاح کچھ وقت پہلے بہت عام ہوئی تھی سہولت کاروں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔
لیکن اس وقت مسلہ دہشت گردی کا تھا جس پر الحمدُللہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بیش بہا قیمتی جانوں کے نذرانے دے کر قابو پایا اور ان کے سہولت کاروں کو بھی انجام کو پہنچایا۔ پاکستان کی تاریخ میں سیاسی دھاندلیوں کی سب سے بڑی مثال سقوط ڈھاکہ کی صورت میں موجود ہے جو ایک بدنما داغ کی طرح نمایاں ہے یہ اس کی بات ہے جب خبر اپنی مرضی سے شائع کی جاتی تھی اور نا شائع کرنے کا اختیار بھی موجود تھا۔
اس کے بعد اگر ہم کسی سیاسی دھاندلی کو رقم کریں گے تو وہ تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کے لئے کی جانے والی دھاندلیوں کا تسلسل ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ تاریکی میں سرزد ہونے والا سانحہ سمجھ کر سیاہ باب بنا کر بند کر دیا گیا لیکن عمران خان کو وزارتِ اعظمٰی سے ہٹا کر اور ان کے خلاف ایک اجتماعی محاذ بنا کر جتنی بڑی غلطی کی گئی ہے یہ ہم لوگ خوب دیکھ رہے ہیں۔
ایک طرف تنہے تنہا عمران خان دوسری طرف تمام ادارے اور تمام ذی قدر سیاسی جماعتیں، اب کیا تھا عمران خان کو خوب معلوم ہو چکا تھا کہ ان کا مقدمہ اب عدالتوں میں تو سننے والا کوئی نہیں ہے انہوں نے عوامی عدالتیں لگانا شروع کر دیں اور کسی زخمی شیر کی مانند اپنے مخالفین کو للکارنا شروع کر دیا اور للکارتے ہوئے نام نہاد قومی سیاسی جماعتوں کے عظیم جانے والے رہنماؤں کے چہروں پر سے نقاب نوچنا شروع کر دئیے۔
اب کیا تھا اصلی چہروں کے سامنے آتے ہی عوام نے عمران خان کی ہر آواز پر لبیک کہنا شروع کر دیا، آواز نے گونج بننا شروع کیا اور یہ گونج ایک شہر سے دوسرے شہر اور پھر شہر شہر، گلی گلی، کوچے کوچے میں سنی جانے لگی ہے۔ حق ثابت ہو چکا ہے نا اہل اور درآمد شدہ نظریہ بری طرح سے ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے، ہر قدم اس اتحاد کی اجتماعی قبر کی جانب بڑھ رہا ہے۔ پاکستان بہت جلد اپنے حقیقی نظریاتی وارث کو سونپا جانے والا ہے۔
اب انتخابات کا وقت بھی نکلتا جا رہا ہے اب اقتدار خود بخود عمران خان کی جھولی میں ڈالا جائے گا اور بہت جلد پاکستان میں صدارتی نظام قائم کیا جائے گا۔ اگر اللہ نے چاہا تو وقت واپس آ جائے گا جب پاکستان کے فیصلے پاکستان میں ہی کئے جائیں گے۔ انشاء اللہ!