Jamhuriat Ya Inteqami Siasat
جمہوریت یا انتقامی سیاست
پاکستان کا مطلب کیالاالہ اللہ اس بات کی گواہی تھی کہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر وجود میں آئے گایا پھر ایسے ہی مسلمانوں کے جذبات کو ابھارنے کیلئے اس نعرے کو استعمال کیا گیا۔ پاکستان کے وجود میں آنے سے دنیا ایک ایسی حیرت میں مبتلا ہوئی کہ جس سے آج تک نہیں نکل سکی۔ وہ حیرت یہ تھی کہ کس طرح سے اتنے مضبوط اقتدار سے کہ جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا ایک ریاست کو حاصل کرلیا گیا۔ جیسا کہ نعرہ لگایا گیا تو پوشیدہ طور پر یہ سمجھ لینا چاہئے تھا کہ مقصد امت ِ مسلمہ کیلئے ایک نئے مرکز کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور جو خلافت ترکی میں ختم ہوئی تھی اب اس کی بنیاد پاکستان کے وجود میں آنے سے پڑ چکی تھی۔ جس سے یہ بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ سرزمین ِ پاکستان جمہوریت کی نمو کیلئے سازگار نہیں اور اگر تھی بھی تو آہستہ آہستہ یہاں کی مٹی کوایسی مٹی سے تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں جمہوریت کے مصنوعی بیج تک کی بویائی ممکن نہیں دیکھائی دیتی۔ اس بات سے اتفاق کرینگے کہ جمہوریت کا لاالہ اللہ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ جمہوریت دشمن کا ایک ایسا ہتھیا ر ہے جس کی بنیاد پر اس نے اپنے نظریات کی ترویج کیلئے دروازہ کھولا نہیں بلکہ تمام دروازے توڑ ڈالے ہیں اور ہماری اقدار کو روندتے ہوئے، ہماری چادر اور چاردیواری کو پامال کرتے ہوئے بے آب گیا میں چھوڑ دیا ہے۔
دوطاقتیں ہیں جو پس منظر میں پاکستان پر حکومت کرتی ہیں ایک وہ ہیں جن کا بنیادی کام تو سرحدوں کی نگھبانی ہے لیکن اندرونی حالات کی پیش نظر انہیں اقتدار کی بھی نگرانی کرنی پڑتی ہے جس کے لئے دوسری طاقت وہ ہے کہ جس کی مرہونِ منت یہ خطہ زمین وجود میں آیا یعنی لاالہ اللہ۔ ان دوطاقتوں کی وجہ سے پاکستان تاحال صحیح سلامت ہے ورنہ جمہوریت نے تو کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی کہ اسکے بخیئے ادھیڑ دیتی جس کا ایک عملی نمونہ تو ہم مشرقی پاکستان سے جدا ہوکر دیکھ چکے ہیں۔ اقتدار کی ہوس رکھنے والوں نے پھر بھی سبق نہیں سیکھا اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں دشمن کے لا محالہ الہ کار بنے ہی رہے ہیں۔ یہ پاک وطن کی عزت کا خیال ہے ورنہ کیسے کیسے کار ہائے نمایاں ہمارے سیاست دان سرانجام دے چکے ہیں اور تاحال دیتے چلے جا رہے ہیں۔
کسی بھی نظام یا حکمت عملی کو نافذ کرنے سے قبل پہلے اسے آزمائشی دور سے گزارا جاتا ہے، لوگوں کے تاثرات دیکھے جاتے ہیں، پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اسکے فائدے اور نقصانات کی نوعیت کیا ہے کیا اس میں ردوبدل کر کے بہترسے بہترین بنانے کی گنجائش موجود ہے اور پھر یہ قابل قبول ہوسکے گا یا نہیں۔ اس سارے عمل سے گزرنے کیلئے ضروری ہے کہ معاشرہ تعلیم و تہذیب یافتہ ہو اور علم کی اہمیت سے بھرپور آگاہ ہوں۔ جمہوریت میں وہ عوام بااختیار ہوتی ہے جسے اچھے برے کی تمیز آتی ہو، وہ باآواز بلند بغیر کسی دباؤ یا لالچ یا خوف کے اہل لوگوں کو اپنے ملک کے فیصلے کرنے کا اختیار دیتے ہیں۔ ہر جمہوری فرد اپنے حقوق کی حفاظت کرنا جانتا ہو قانون اسکے جائز حقوق کی بھرپور حمائت کرتا ہو۔ شائد مذکورہ خصوصیات تو آج کسی قوم میں دیکھائی نہیں دیتیں۔ شائد ترقی یافتہ ممالک میں ابھی کچھ صاحب نظر لوگ ہوں جو صحیح سمت میں رہنمائی کرنا جانتے ہوں۔
قارئین اتفاق کرینگے کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ درآمد شدہ چیزوں ہم پاکستانی انتہائی مقدس سمجھتے ہوئے اعلی ترین درجے پر رکھتے ہیں، جیسے کہ ایک انگریزی زبان کو ہی لے لیجئے۔ چاہے ہمیں اسکا استعمال نہیں آتا ہو۔ جمہوریت بھی ایک ایسی ہی درآمد شدہ شے ہے جو ہم اپنے ساتھ ساتھ لئے گھوم رہے ہیں (بندر کے ہاتھ ادرک کا محاورہ بھی ذہن میں رکھ لیں)۔ ہماری تاریخ چیخ چیخ کر یاد دہانی کراتی ہے بلکہ ہر روز کراتی ہے اور یہ انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو سوائے ملک و قوم کو نقصان پہنچانے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اگر ہم اس جملے کو کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے پر گہری نگاہ ڈالیں تو دیکھائی دیتا ہے کہ یہ انتقام قوم سے لینے کی بات کی جارہی ہے، یعنی جمہوریت رہیگی تو عوام کیساتھ بدترین سلوک روا رکھا جائے گا۔ ایک بادشاہ تھا جسے یہ پریشانی تھی کے رعایا کوئی شکائت نہیں کرتی تو وزیر نے مشورہ دیا کہ بادشاہ سلامت حکم صادر کروائیں کہ روز صبح جو شہرمیں داخل ہوگا اسے ایک کوڑا لگایا جائے گا، کوڑے لگنا شروع ہوگئے لیکن پھر بھی کوئی سوالی نہیں آیا کچھ دنوں کے بعد سوالی آگیا، بادشاہ کی خوشی کی انتہا نا رہی۔ سوالی پیش ہو ابادشاہ کا اقبال بلند ہو، بادشاہ سلامت (جو اس بات کی توقع کر رہے تھے کہ یہ ہم سے رحم کرنے کی درخواست کریگا) شہر کے دروازے پر روزانہ ایک کوڑا لگایا جاتا ہے اس کا کیلئے وہاں صرف ایک فرد موجود ہے اور شہر میں آنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے بہت دیر لگ جاتی ہے تو آپ سے درخواست یہ ہے کہ برائے مہربانی کوڑے لگانے والوں کی تعداد میں اضافہ کردیا جائے تاکہ وقت کی پریشانی سے بچا جاسکے۔ کوڑے لگانے کی وجہ سے کوئی اختلاف نہیں بلکہ اسکو باقاعدہ کی گنجائش پیدا کردی گئی۔ ہم بھی کسی ایسے ہی معاشرے کا حصہ ہیں اشیائے خورد و نوش مہنگی ترین ہوچکی ہیں، نظام عدل سے لیکر خاکروب تک سب کے سب بغیر بخشش لئے کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے، جتنی بڑی کرسی اتنی بڑی رقم۔ آج دنیا میں شائد ہی کوئی ملک ہو جہاں سیاسی انتشار نا پایا جاتا ہو، اسے جمہوریت کا حسن بھی کہا جاسکتا ہے اور بدصورتی بھی۔
پاکستان میں جب بھی انتخابات ہوئے، ہارنے والی جماعتوں نے ہمیشہ جانبدار کہہ کر رد کردیا (مطلب چنے ہوئے نہیں بلکہ منتخب شدہ لوگوں کو اقتدار دیا جاتا رہا ہے)اور پھر جب تک حکومت کا تختہ الٹ نہیں دیا جاتا ہارے ہوئے اور حکومت مخالفین چین سے نہیں بیٹھتے۔ سمجھنے کیلئے ایسا بھی لکھا جا سکتا ہے کہ شور کرتے رہو مزے(یہ عوام کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں) کرتے رہو، آئین و قانون کی دھجیاں اڑاتے رہو مزے کرتے رہو۔ شائد ہی کسی نے اپنی ہار کو اپنی گزشتہ کارگردگی سے موازنہ کرنے سے مشروط سمجھا ہو بس سب جیتنے کیلئے ہوتے ہیں۔ حقیقت میں شکست عوام کی ہوتی ہے سیاسی قبیلے سے تعلق رکھنے والوں کو جیت یا ہار سے فائدے میں کمی اور زیادتی سے مطلب ہوتا ہے۔
موجودہ منتخب شدہ حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بدترین صورتحال کا سامنا ہے(ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے اور ہر نئی اقتدار میں آنے والی حکومت عوام کو یہ بتاتی ہے کہ ملک تقریباً دیوالیہ ہونے والا ہے) اور یہاں تک پہنچانے میں پچھلی حکومتوں کی بد عنوانیاں اور قانون کا جانبدارانہ استعمال ہے (یہ بیانیہ بھی نیا نہیں)۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں میں اکثریت ایسے منتخب نمائندوں کی ہے جو ماضی کی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب اور گنتی کے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے عام پاکستانی کو اسکا حق دلانے کیلئے جدوجہد کی ہے اور ایوانوں تک پہنچنے کا ایک کھٹن سفر کیا ہے۔ تقریباً تین سال گزرجانے کے بعد وہ ثمرات عوام تک نہیں پہنچے ہیں جن کی بنیاد پر پاکستان کی عوام نے تبدیلی کے نعرے کو اپنا قیمتی ووٹ دیا تھا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بدعنوانی کی جڑوں تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے لیکن ناسور کا علاج اتنا آسان نہیں ہوتا۔ بہت سارے ایسے اقدامات کئے گئے ہیں کہ جن سے بدعنوانی کا راستہ بند کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ ایک رہنما کی سچائی، لگن اور دیانتداری اگر سارے کارکنان میں سرائیت کر جائے تو راتوں رات تبدیلی آسکتی ہے لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں۔ حضرت شیخ ابراہیم ذوق نے اس سارے قصے کو کیا خوب سمیٹا کہ
اے ذوق دیکھ دختر رز کو منہ نہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
دنیاکو چلانے کیلئے انسانوں نے بہت سارے قدیم و جدید نظاموں کو رائج کیا لیکن کوئی ایک بھی مکمل کارگر ثابت نہیں ہوسکا، جو اس بات کا دائمی ثبوت ہے کہ اللہ کا نظام جو کہ خلافت میں پوشیدہ ہے دنیا کے امن و سکون کیلئے عوام الناس کی بھلائی کیلئے بہترین ہے۔ جن ممالک میں صدارتی نظام ہیں وہ اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ خلافت کا نفاذ کیلئے تو اسلام کا ہوناضروری ہے تو اس نعملبدل کے طور پر صدارتی نظام تشکیل دیا گیا ہے اور ان ممالک میں امور بھی کافی حد تک بہتر ین ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت سوائے انتقامی سیاست کے اور کچھ بھی نہیں رہی۔ موضوع پر اپنی قیمتی آراء سے آگاہ کیجئے اور مناسب سمجھیں تو اصلاح فرمائیں۔