Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Khalid Zahid/
  4. Hum Kamzor Nahi Hain

Hum Kamzor Nahi Hain

ہم کمزور نہیں ہیں

کرونا نے سب سے زیادہ متاثر ان لوگوں کو کیا جو کمزور تھے، یہ کمزوری اعصابی اور جسمانی دونوں طرح کی تھی۔ یہاں یہ مقولہ بھی صادق ہوتا دیکھا گیا کہ جو ڈر گیا وہ مر گیا اور باقاعدہ مر گیا۔ انسان کو اپنی صلاحیتوں سے آگہی تک رسائی آسانی سے نہیں ملتی اگر ایسا ممکن ہوتا ہے تو وہ گنتی کے لوگ ہوتے ہیں۔ عمومی مثال ہے کہ ایک گاڑی کا صحیح کرنے والا یا پھر ایک طبیب (انسانی مشین کو ٹھیک کرنے والا) جس کیلئے آپ گھنٹوں انتظار کرتے ہیں یقیناََ اس کی کوئی خاص وجہ ہو گی یا پھر یونہی۔

قدرت نے تو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ انسان قدرت کی تخلیق میں (جس کا کوئی شمار نہیں ہے) سب سے افضل مرتبے پر فائز ہے۔ بد قسمتی سے انسان تو بہت ہی چھوٹے سے نظام میں کسی خاص مرتبے کی چاہ میں اس دار فانی سے کوچ کر جاتا ہے یعنی دنیا میں اپنے ہونے کا مقصد جانے بغیر ہی، قدرت کی عطاء کی گئی برتری کے مزے لئے بغیر ہی چار کاندھوں پر قبر کی نظر ہو جاتا ہے۔

تاریخِ انسانی میں اس بات کے واضح ثبوت ملتے ہیں کہ انسانوں کو مخصوص نظریوں کی تائید کرانے کیلئے کوششیں کی جاتی رہی ہیں، مخصوص نظاموں کے نفاذ کیلئے تیار بھی کیا گیا۔ اپنے مختلف مضامین میں ا س حقیقت پر بار ہا روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ قدرت کے دئے گئے اعلیٰ منصب تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش ہر کوئی نہیں کرتا اور اگر کرتا بھی ہے تو اسے رسائی اس کی کوشش کے حساب سے دے دی جاتی ہے یعنی جس نے حقِ بندگی ادا کی اسے اس کی بندگی کا صلہ دے دیا گیا۔

کوئی بڑی مشکل سے حدود و قیود سے ماورا ہو کر اس منصب پر پہنچنے کی سعی کرتا ہے پھر قدرت اسے مرتبہ بھی اس کی کوشش کے عین مطابق دے دیتی ہے اور شائد اپنی حدود و قیود میں داخل کر لیتی ہے۔ انسان کی بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ ذاتی تگ و دو سے محروم رہتا ہے یعنی جاننے کی کوشش صرف اتنی بروئے کار لاتا ہے جتنی کہ وہ با آسانی ہضم کر سکے۔

یقیناََ قدرت نے انسان کے اندر ایسے آلات نصب کر رکھے ہیں جنہیں ہم عام طور پر محسوس کرنے والا آلہ (sensor) کہتے ہیں جو کسی غیر مناسب روئیے یا عمل پر شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ سائنسدانوں نے جو مختلف محسوس کرنے والے آلات (sensors) بنائے ہیں ان تک رسائی انسان میں موجود یا نصب شدہ محسوس کرنے والے آلات سے متاثر ہو کر ہی ایجاد کئے ہیں۔

واضح کرتے چلتے ہیں کہ انسانوں میں نصب کئے ہوئے یہ محسوس کرنے والے آلات کون سے ہیں؟ کسی بھی گرم یا سرد شے کو چھونے سے فوراً پتہ چل جاتا ہے، کڑوی اور میٹھی شے کا پتہ چلا لیتے ہیں، خوش و بدبو کا فرق جان لیتے ہیں، اچھی اور بری آوازوں میں تفریق کر لیتے ہیں۔ اپنے انجام سے بے خبر چلتا رہتا ہے۔ خواہشوں کی غلامی انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔

اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے اور وہ تو وقت اور حالات کی وجہ سے محتاط رویہ اختیار کیا ہوا ہے تو وہ حقیقت میں نا صرف اپنے آپ سے بلکہ سب سے غلط بیانی کر رہا ہوتا ہے جس پر سے پردہ آخر کار اٹھ ہی جاتا ہے۔ ہمیں گناہوں میں اس طرح سے مبتلا کر دیا گیا ہے کہ اگر کوئی ہمیں ان کی حقیقت بتائے اور انہیں کرنے سے روکے تو لگتا ہے کہ انہیں نا کرنے سے گناہ ہو جائے گا۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک عمل نسل در نسل چلا آ رہا ہوتا ہے تو اسے بدلنے کیلئے آپ کی فطرت اجازت نہیں دیتی، اس بات کی مماثلت ہمارے پیارے نبی ﷺ کے دور سے چلی آ رہی ہے جب آپ ﷺ کے عزیز و اقارب یہ جانتے ہوئے کے آپ ﷺ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سرا سر سچ اور حق ہے لیکن اپنی شان و شوکت جو انہیں ان کے آباؤ اجداد سے ورثے میں ملی تھی کیسے چھوڑ سکتے تھے اور لا محالہ وہ وہی کرتے رہے جو وہ کرتے تھے۔

جب آپ سمجھوتا کر لیتے ہو تو کمزور ہو جاتے ہو، سمجھوتا کرنے کیلئے یہ ضروری نہیں کہ آپ کمزور ہیں تو اسلئے آپ پر فرض ہے کہ آپ سمجھوتا کریں کیونکہ آپ یہ سوچ لیتے ہو کہ اگر سمجھوتا نہیں کیا تو زبردستی ہم سے یہ بات منوالی جائے گی۔ جب اختیار موجود ہے تو عافیت اسی میں ہوتی ہے کہ اسے استعمال کر لیا جائے بصورت دیگر طاقتور اپنا چاہا تو کر کے ہی رہے گا۔

ہم نے ایک مضمون لکھا تھا من کا بھوت بنگلہ، جس میں یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ ہم اپنے اندر خیالات سے پیدا کئے گئے خوف پالتے ہیں اور ان کی خوب پرورش کرتے ہیں اور اس خوف کا عظیم ترین مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ ہمیں فقط غلام بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرتا رہے۔ آج ہماری ایمانی کمزوری ہماری معاشرتی، معاشی اور اخلاقی کمزوریوں کی صورت میں کھل کر سامنے آ چکی ہیں اور ہم اپنی بے بسیوں کا رونا گانا ساری دنیا کے سامنے کرتے دیکھائی دے رہے ہیں۔

اس کے برعکس تاریخ واشگاف الفاظ میں گواہی دیتی سنائی دے رہی ہے کہ کتنے تلخ حالات محدود ترین بلکہ نا ہونے کے برابر وسائل کے ساتھ حضرت محمد مصطفی ﷺ اور ان کے اصحاب، 230 نے آدھی سے زیادہ دنیا پر نا صرف حکمرانی کر کے دکھائی اور لوگوں کے دلوں پر تا قیامت تک راج کرتے رہیں گے۔ آج ساری دنیا بالخصوص ترقی یافتہ اقوام میں آپ ﷺ کی قائدانہ صلاحیتوں کا ڈنکا بج رہا ہے اور ڈنکا وہ بجا رہے ہیں جنہوں نے ان تمام نظاموں پر تحقیق کی جنہیں دنیا میں نافذ کرنے کی کوشش کی گئی اور کی جا رہی ہے۔

کمزوری کا تعلق غربت سے بلا واسطہ جوڑا جا سکتا ہے کیونکہ جب انسان کے پاس کھانے کیلئے غذا نہیں اور بیماری میں دوا نہیں ہو گی تو انسان کمزور ہی ہوتا جائے گا۔ حکم الامت حضرت علامہ محمد اقبالؒ، 231، نے بے خوفی کی کیا خوب وضاحت کر دی ہے کہ، 234۔

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی۔

ہم نے اللہ کا دیا ہوا انعام یہ سر زمین پاکستان اپنی خواہشات کے عوض گروی رکھ چھوڑی ہے اور ان خواہشوں کی تکمیل کیلئے اس آگ کی بھٹی میں عوام نے جلنا ہے۔ عوام نے اس وقت تک جلنا ہے جب تک اپنی کمزوری کو اپنی طاقت نہیں بنا لیتے اور اپنے ملک کے فیصلے، اپنے لوگوں کی فلاح کے فیصلے، اپنے وسائل اور اپنی قوت ارادی اور خوداری کے فلسفے اپنی سر زمین پر نہیں ہونے لگتے۔

ہمیں یقین کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کمزور نہیں ہیں ہمیں باقاعدہ کمزور کیا گیا ہے، اب ہمیں ان گرہوں کو کھولنا ہے جنہیں لسانیت، فرقہ واریت وغیرہ کے نام دے کر ہمارے درمیان لگائی گئی ہیں اور ہمیں بانٹا گیا ہے۔ اللہ پر یقین رکھیں اس نے ہمیں کمزور نہیں بنایا اور نا ہی وہ ہمیں کمزور دیکھنا چاہتا ہے، بس ضرورت اس پر یقین کی ہے پھر سب گرہیں کھل جائیں گی پھر سب راستے ہمارے ہوں گے۔ انشاء اللہ۔

Check Also

Kya Ye Khula Tazad Nahi?

By Javed Chaudhry