Friday, 20 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Kamran Tufail
  4. Hamare Idare Mazboot Hue Hain?

Hamare Idare Mazboot Hue Hain?

ہمارے ادارے مضبوط ہوئے ہیں؟

عمران خان حکومت کے بارے میں ایک عمومی رائے یہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی ایک ڈریم حکومت ہے، بلاول کا وزیرآعظم کو دیا گیا خطاب "سلیکٹ" تو سب لوگوں نے نظر انداز کردیا۔ عمران خان کی ماضی میں کی گئی تقاریر میں کئی بار پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ ان کے مخالفین اداروں میں اپنے من پسند افراد کی تعیناتیاں کرکے نظام اور اداروں کو کمزور کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔

مناسب ہوگا کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ عمران خان کے تقریباً دو سالہ دور میں ادارے مضبوط ہوئے ہیں یا کمزور؟ پارلیمان ایک اہم ادارہ ہے جس کی بنیادی ذمہ داری قانون سازی ہے لیکن موجودہ دور حکومت میں قانون سازی کا کام بذریعہ پارلیمان کرنے کے ساتھ ساتھ صدارتی آرڈینینس فیکڑی میں بھی کیا گیا گویا یہ کام ایک نہیں بلکہ دو دو اداروں نے کیا اور یوں یہ دونوں ادارے مضبوط ہوئے۔

یہ ادارہ عبدالقادر پٹیل بقابلہ مراد سعید اور مشاہد اللہ بمقابلہ فواد چوہدری جیسے بہترین دنگل دکھانے میں کامیاب رہا اور نون لیگ کے سابقہ دور حکومت کی روایت پر عمل کرتے ہوئے وزیرآعظم نے ہر اجلاس میں شرکت فرما کر اس مضبوطی پر ایک مہر ثبت کردی۔ اب یہ ادارہ کتنا مضبوط ہوا ہے یہ جاننا شاید اتنا مشکل سوال نہیں ہے۔

صحافت کی بطور ادارہ مضبوطی کا عالم یہ ہے کہ طلعت حسین، نجم سیٹھی، مطیع اللہ جان، رؤف کلاسرہ، نصرت جاوید، عامر متین جیسے صحافیوں کو بالکل آزاد پلیٹ فارم دئیے گئے تاکہ ان کو اپنے پروگرام ایک اور اہم ادارے سے سینسر نہ کرانا پڑیں اور ان کا جو دل چاہے وہ یہ کہہ سکیں جو ان کے لئے پہلے ممکن نہیں تھا۔

احتساب چونکہ عمران خان کا سب سے زیادہ دوہرایا جانے والا نعرہ تھا اسی لئے نیب کی کارکردگی اس معاملے میں بہت بہتر رہی، طیبہ فاروق کیس میں چئیرمین نیب کا مضبوط کردار مزید نکھر کر سامنے آیا، تمام کرپٹ عناصر پر مضبوط مقدمات قائم کرکے نیب نے ہر طرف اپنی دھاک بٹھا دی، کرپشن انڈیکس میں پاکستان کی تنزلی کے باوجود نیب کی شبانہ روز محنت نے عوام کو ایک لمحہ بھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ کرپشن بڑھ گئی۔ نوے دن ریمانڈ میں رکھے جانے افراد سے صرف دو چار سوال کرکے نیب نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ سوال نہ کر کے بھی مضبوط مقدمات بنائے جاسکتے ہیں۔

عدلیہ کی مضبوطی کا اندازہ جج ارشد ملک کی مثال سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے شریف خاندان کے بلیک میل کرنے کے باوجود بلیک میلر کے ہی خلاف فیصلہ دے کر نئی مثال رقم کردی، قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ پر وکلا کا اعتماد چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ یہ ادارہ کتنا مضبوط ہے، سپریم کورٹ بار اس مقدمے میں فریق بنا بلکہ انہوں نے واضح طور پر بار بار اعلان کیا کہ انہیں قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھی ججوں پر پورا اعتماد ہے، ان کے دئیے گئے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست میں اس اعتماد کی ایک جھلک صاف دیکھی جاسکتی ہے۔

تمام اداروں کی ماں یعنی مسلح افواج کی قدر و قیمت میں اس وقت گراں قدر اضافے ہوگیا جب موجودہ چیف آف دی آرمی سٹاف کو تین سال توسیع دینے کا معاملہ درپیش ہوا، پوری قوم اور خود مسلح افواج اس بات پر متفق نظر آئے کہ اگر یہ توسیع نہ ہوئی تو ادارہ نیم یتیم ہوجائے گا، مسلح افواج جس طرح سے ڈٹ کر عمران حکومت کے پیچھے کھڑی رہیں اس کی مثال اس سے پہلے کسی سول حکومت میں نظر نہیں آئی، مسلح افواج کی کے اہم ریٹائرڈ افسران نے ریٹائر ہونے کے باوجود یہ فیصلہ کیا کہ وہ قوم کی خدمت جاری رکھیں گے اور اپنی گوں نہ گوں صلاحیتوں سے اس ملک کو فیض یاب کریں گے اور یوں اپنا ریٹائرمینٹ کے بعد آرام کرنے اور گولف کھیلنے کا حق بھی استعمال نہ کریں گے، گویا یہ ادارہ ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا رہا اور مضبوط سے مضبوط تر ہوا۔

وفاق کے نمائندہ ادارے یعنی صدر مملکت اس دور حکومت میں کس قدر فعال رہے اور مضبوط ہوئے یہ بات تو کوئی تاریخ نویس ہی لکھے گا لیکن شہید ضیا الحق کے بعد سب سے زیادہ آرڈینیس عارف علوی صاحب نے جاری کئے اور اس ادارے کو دہی بھلوں کے چٹخارے سے ماورا ہو کر ایک دندان شکن ادارے کی شکل دی۔ گویا عمران خان کا ایک اور وعدہ پورا ہوا اور اور اس ملک کے ادارے نہ صرف مضبوط ہوئے بلکہ ان کے بارے میں عمومی تاثر بھی بہت بہتر ہوا۔ امکان غالب ہے کہ عمران خان کے بقیہ دور حکومت میں یہ ادارے اس قدر مضبوط ہوں گے کہ آنے والے حکمران اپنی من مانی نہیں کر سکیں گے۔

Check Also

Tyrana Jaiza

By Ali Raza Ahmed