Haqooq Ul Ebad Ke Bare Mein Afrat o Tafreet
حقوق العباد کے بارے میں افراط و تفریط
ہمارے ہاں برصغیر کا خطہ مختلف الخیال، رسومات اور شخصیت پرستی کی بنا پر پرستش کے لیے ہمیشہ زرخیز رہا ہے۔ اسی بنا پر مختلف طبقے، رشتے حتیٰ کہ جن جانوروں کو مقدس درجہ دیا گیا وہ مالی خسارے کے ساتھ جانی استحصال کا باعث بھی بنتے رہے۔ ہمارے ہاں اسی بناء پر مسلمان ہونے کے باوجود یہ حقوق العباد کے بارے میں افراط و تفریط بارہا اردگرد دیکھی جاتی ہے۔ یہاں کی معاشرتی فضا کی بدولت ان پر بات کرنا۔ بدتمیزی، نافرمانی اور سرکشی سمجھی جاتی ہے۔
عدم توازن کا شکار خاندانی نظام بہت سی زندگیوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ جس میں والدین کے کردار پر بات کرنا نعوذبااللہ شرک کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے ہمارے علماء، خطباء اور مذہبی طبقہ کے افراد علمی بددیانتی کے مرتکب رہے ہیں۔ جنہوں نے قرآن مجید کی ان آیات یا سورہ کا ذکر کیا جن میں والدین کی عظمت بیان کی گئی لیکن سورہ لقمان کی ان ہدایات پر بات کرنے ان کی تشریح کرنے سے گریز کیا جن کی روشنی میں اولاد کے حقوق پر راہنما اصول دئیے گے۔
اولاد کے استحصال کے لیے معاشرے میں ان احادیث کو فروغ دیا گیا جو موضوع، من گھڑت اور جھوٹی تھیں۔ جن میں مشہور زمانہ ایک صحابی رسول اللہ ﷺ کی نزاع کی حالت میں کلمہ نہ پڑھنے کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے جن کی والدہ ان سے اس بات پر ناراض تھیں کہ بیوی کی بات کو میری بات پر ترجیح کیوں دی۔ اس کے علاوہ ماں کے قدموں میں جنت ہے، اور بھی بیشتر ایسی احادیث زبان زد عام ہیں۔
اس کے برعکس ان احادیث کو بیان کرنے سے چشم پوشی کی جاتی ہے جن میں اولاد کے حقوق کا تحفظ ان کی ازدواجی معاشی حقوق پر واضح ہدایات جو مستند اور صحیح ہیں روگردانی کی جاتی ہے۔ معاشرے میں طلاق کے بڑھتے واقعات، جہیز جیسے ناسور پر ایک پورے خاندان کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنا اور بیٹی کی پیدائش پر بہو کو اچھوت قرار دینے کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے کہ والدین کی ہر بات پر سر تسلیم خم کیا جائے۔
سورہ النساء معاشرتی، سماجی اصولوں اور رشتوں کے درمیان ذمہ داریوں کا تعین کرتی ہے۔ اس میں ایمان کی بنیادی شرائط میں اللہ اس بات کا حکم دیتا ہے کہ میرے احکامات کے مقابلے میں اگر والدین کی رضا آ جائے تو ایمان کا تقاضا ہے کہ انہیں چھوڑ دیا جائے۔ بدقسمتی سے کردار کشی، رشتوں کی پامالی اور قطعہ رحمی کا درس صرف ذاتی انا اور خواہشات کی تکمیل کے لیے والدین بالخصوص والدہ ہی دیتی ہے۔ معاشرے کی بقا، اچھی نسل کے فروغ اور بہتر اقدار کے لیے مثبت انداز میں ایسے تمام رویوں کا رد کرنا ہر ذی شعور معاشرے کے فرد کا فرض ہے۔