Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Jameel Asif
  4. Afat Aur Hamari Bad Entezami

Afat Aur Hamari Bad Entezami

آفات اور ہماری بد انتظامی

قدرتی آفات آنے سے اس سے متاثر ہونے والی مخلوق خدا اور اس کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے۔ دور دور پھیلے دیہات، قصبات حتی کے چند گھروں پر محیط قصبات اکثر و بیشتر قریبی بڑے شہر کے باسیوں کی نظروں سے بھی اوجھل ہوتے ہیں۔ اس دوران غیر منظم یا چھوٹے پیمانے پر اور انفرادی طور پر سماجی خدمات پیش کرنے والے افراد اسی بھیڑ چال کا شکار نظر آتے ہیں۔

جس کا عموماً اس موقع پر کمیونیکیشن اور علاقائی و جغرافیائی سے نابلد احباب سامنا کرتے ہیں۔ ایک ہی مخصوص علاقے کی جانب جس کا ذکر بار بار میڈیا پر ہوتا ہے، امدادی سامان لے کر دوڑ پڑتے ہیں۔ جہاں پہلے ہی مختلف چھوٹی بڑی این جی اوز اور سرکاری ادارے کار فرما ہوتے ہیں۔ خدمت خلق کے جذبے سے سرشار اداروں کے کارکن تو ان تمام علاقوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔

جو لوگوں کی نظروں میں اوجھل ہوتے ہیں۔ اور تن آسان انفرادی کوششیں کرنے والے احباب اور سرکاری اہلکار بس خانہ پوری کرکے آ جاتے ہیں اور اصل ضرورت مند جو دور دراز علاقوں میں انفراسٹرکچر کی تباہی کے باعث کٹ جاتے اور محروم رہتے ہیں۔ بطور مثال ہر شخص تونسہ جا رہا لیکن کوہ سلیمان اور بلوچستان کے دور دراز پہاڑی مقامات تک موجود اصل متاثرین تک رسائی کوئی کوئی کر رہا ہے۔

امدادی سامان کی فراہمی صرف انہیں علاقوں تک رہ جاتی ہے۔ جہاں فل حال لوگوں کی ضرورت پوری ہو چکی ہوتی ہے یا پیشہ ور افراد متاثرین بن کے مال وصول کر رہے ہوتے ہیں۔ قومی سطح پر آنے والی آفات سے نبرد آزما ہونا حکومت وقت کی بس بات بھی نہیں ہوتی، بلکہ اچانک سر پڑنے والی آفت سے نبٹنے کے رضا کارانہ طور این جی اوز کے ساتھ انفرادی کاوشیں بھی شروع ہو جاتی ہیں۔

لوگ ایسے افراد کی معاونت کرتے ہیں۔ جو اپنی خدمات کچھ افراد کو استشنا دے مصیبت زدہ متاثرہ افراد اور علاقوں کو فراہم کرتے ہیں۔ اس سے انہیں فیلڈ میں کچھ تجربات کے ساتھ چندہ دینے والے افراد کی معاونت بھی حاصل ہوتی ہے۔ جن کا وہ اعتماد حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔ یہاں سے وہ مزید جذبہ لے کر اٹھتے ہیں کہ انفرادی کاوشوں سے جب میں اتنا کچھ کر سکتا ہوں تو کیوں نہ میں ایک آرگنائزیشن بنا لو۔

جو مصیبت زدہ افراد کی مستقبل میں ایسی ہی کسی گھڑی میں مدد کرے۔ لین وہ یہ نہیں سوچتا این جی اوز چلانے کے لیے کل وقتی توجہ کے ساتھ یہ بات بھی مدنظر رکھنی پڑتی ہے کہ قومی سطح کی آفات مسلسل نہیں آتی، عشروں کے بعد نظام فطرت وہ بھی انسانی کوتاہیوں پر گرفت کرتا ہے۔ جس کا خمیازہ بیشتر حصوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔

آفت آئی، لوگوں کی بہبود کاری کا عمل ہوا کچھ وقت کے بعد زخم مندمل ہوئے اور زندگی کا پہیہ چل پڑا۔ اب چندہ کس لیے لیا جائے گا۔ سوال یہ ہے صحت تعلیم کی فراہمی چھت کا بندوبست ریاست یا بڑے پیمانے پر موجود فاونڈیشن کر دیتی ہیں۔ نچلی سطح پر وقتی خدمات مہیا کرنے والے افراد کیسے مینج کریں گے۔ جب آپ کے ذاتی مشاغل بھی آپ کے منتظر ہیں۔

این جی اوز تو مشاہیرہ پر لوگوں کو رکھتے ہیں۔ ان کے ماہانہ اخراجات طے کرکے کل وقتی ان کی خدمات مختلف شعبہ جات میں حاصل کرکے انہیں طے شدہ معاوضہ دیتے ہیں۔ اب جب کوئی شخص فاونڈیشن بنانے کا خیال لاتا ہے تو کیا وہ ان چیزوں کے بارے بھی سوچتا ہے، جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔ اس کے ذاتی اخراجات کا حصول کیسے ممکن ہو گا۔ اگر وہ این جی اوز بنا لیتا ہے، اس کا آڈٹ کیسے اور کسے دے گا۔

اس کے مقاصد کیا ہو گے، یہ وہ سوالات ہیں۔ جو وہ ان سرگرمیوں کے دوران بھول جاتا ہے۔

Check Also

Pak French Taluqat

By Sami Ullah Rafiq