Yaksan Nisab e Taleem
یکساں نصاب تعلیم
کچھ دن سے ایک خبر ہیڈ لائنز کی زینت بنی ہوئی ہے کہ اگست سے پورے ملک میں یکساں نصاب تعلیم نافذ کر دیا جائے گا۔ یہ وہ خبر ہے کہ جسے سننے کے لیے ہر کان ترس رہا تھا۔ تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے۔ ہمیشہ سے ہمارے ملک میں ناقص تعلیمی پالیسیاں بنتی رہی ہیں۔ ہر سال نصابی تبدیلیاں سرزد ہوتی رہی ہیں۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں دو قانون ہیں۔ ایک قانون امیر کے لیے اور ایک غریب کے لیے۔ بالکل اسی طرح تعلیم بھی دو طرح کی تھی۔ امیر طبقے کے لیے اعلی درجے کا اور مہنگا، نصاب اور تعلیمی سسٹم تھا، جبکہ متوسط اور غریب طبقے کے لیے نصاب بھی متوسط اور ناقص تھا۔
امراء اور شرفاء مہنگے اور پرائیویٹ اداروں میں، یہاں تک کہ سیلف فنانس پہ پڑھ کر ملکی اعلی اداروں پر فائز ہوتے رہے ہیں۔ دوسری طرف نوکر چاکر اور غریب غرباء سرکاری اور نیم سرکاری سکولوں اور کالجوں سے پڑھ کر درجہ چہارم سے آگے نکلنے سے قاصر تھے۔ شاذونادر ہی کوئی سرکاری ادارے سے پڑھا ہوا شخص آگے نکل پاتا۔ ایک بات بہت دلچسپ ہے کہ سرکاری اداروں سے پڑھے ہوئے بچے اور جوان ایک طرف تو بے حد مایوس اور مضطرب ہیں، جبکہ دوسری طرف یہی مایوس و مضطرب جوان اعلی اداروں سے پڑھے ہوئے شاہی لوگوں سے کامن سینس اور ذہانت میں کہیں آگے نظر آتے ہیں۔ بس وسائل اور حالات سے غیر موافقت کی وجہ سے یہ لوگ معاشرے میں اپنا وہ مقام نہیں بنا سکتے جو امیر اور شاہی خاندانوں کے حصے میں آتا ہے۔
پورے ملک کے تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب تعلیم سے کم از کم وہ مایوسی تو ختم ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے جو کافی عرصے سے پسے ہوئے طبقے کا مقدر بنی ہوئی تھی اور ان کو سرکاری نوکریوں کے حوالے سے اقلیت کا درجہ ملا ہوا تھا۔
ایک جیسے نصاب سے ایک جیسی ذہانت پروان چڑھے گی۔ ایک جیسے نصاب سے ایک جیسی خود اعتمادی حاصل ہو گی۔ ایک جیسے نصاب سے امیر اور غریب کے لیے سرکاری نوکریوں کے حصول کی شرح میں جو نمایاں فرق تھا وہ ختم ہو گا۔ ایک جیسے نصاب سے ایک جیسا شعور وجود میں آئے گا۔ ایک جیسے نصاب سے ساری تفریق ختم ہو جائے گی۔ غریب اور امیر کا فرق ختم ہو گا۔ اس فرق کے خاتمے سے بیروزگاری کی شرح میں بھی کمی ہو گی۔
ایک جیسے نصاب سے سرکاری اور نجی اداروں کے مابین فرق ختم ہو گا اور ان کی ویلیو بھی ایک جیسی ہو جائے گی۔ کسی کی زبان پہ یہ سننے کو نہیں ملے گا کہ فلاں شخص F.C یا P.U سے پڑھا ہے اور وہ دوسروں کے برعکس زیادہ ذہین یا نوکری کا مستحق ہے۔
تعلیمی نظام کی جو سب سے بڑی خامی یا بیماری تھی اس کی تشخیص ہو چکی ہے اور سب سے اہم مسئلہ مرض کی تشخیص کا ہوتا ہے علاج کا نہیں۔ تشخیص اگر درست ہو جائے تو علاج کامیاب طریقے سے ہو جاتا ہے۔ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ اس اعلان اور پالیسی کو آگے لے کر چلا جائے یہ محض اعلانات کی حد تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔
اعلی تعلیم یافتہ پی۔ ایچ۔ ڈی ڈاکٹر صاحبان کو ملکی تعلیمی نظام میں اعلی درجوں پر فائز کیا جائے، اس سے پورے تعلیمی نظام میں مزید بہتری آئے گی۔ لاکھوں روپے لگانے کے بعد ایم۔ فل اور پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل ہوتی ہے اور ڈاکٹر صاحبان (اکثر) پرائیویٹ اداروں میں غیر یقینی کی صورت میں اور کم تنخواہ کے عوض پڑھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس اعلی تعلیم یافتہ طبقے کی خالص خدمات حاصل کی جائیں نہ کہ ان کو ضائع کیا جائے۔ پرائیویٹ اداروں کو سرکاری تحویل میں لے لیا جائے اور ان کی نگرانی حکومت خود کرئے تاکہ ان کی اہمیت میں اضافہ ہو اور کوئی بھی من مانی نہ کر سکے۔ یکساں نصاب امیر طبقے کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب نہ دیا جائے بلکہ امیر اور غریب دونوں طبقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا جائے۔ نچلے طبقے کو کتابیں حکومت کی طرف سے مہیا کی جائیں اس سے سکولوں میں بچوں کے داخلے کی شرح میں اضافہ ہو گا۔