Wo Shakhs Nahi Tha
وہ شخص نہیں تھا

کہنے کو وہ اک شخص تھا لیکن شخص نہیں تھا۔ کوئی فرشتہ، کوئی درویش، کوئی دانا معلوم نہیں کیا تھا۔ مجازاً وہ بڑا بھائی تھا لیکن حقیقتاً اک نایاب اور قابل بھروسہ دوست تھا۔ عمر کا ایک بہت بڑا گیپ ہونے کے باوجود اس سے ہم جولیوں اور ہم عمروں جیسی گپ شپ رہتی۔ ایسی باتیں جو ماں سے کرنی ہوتی ہیں میں اسی سے کرتا تھا۔ میں کالج سے گھر آتا تو اس کی جپھی میری پورے ہفتے کی تکان پل بھر میں ختم کر دیتی۔
مجھے یاد ہے وہ 2012 میں جب پہلی دفعہ بیمار ہوا (ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن) تو اس کی زندگی کی امید ختم تھی۔ پھر 2017 میں حالت پہلے سے بھی بدترین تھی، گردے واش ہوئے، مثانے کا اپریشن ہوا، اتنی چیر پھاڑ کے باوجود اس کا زندہ رہنا ہی اصل معجزہ تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں یہ پہلا معجزہ دیکھا جس کے بعد مجھے لگا کہ خدا واقعتاً موجود ہے اور وہ دعائیں فوری بھی قبول کرتا ہے بس نیت اور دعا کا طریقہ آتا ہو۔ وہ ویل چیئر پہ بیٹھنے کے قابل بھی نہیں تھا۔ اسے اوپر نیچے لے کر جانا ہوتا تو بازوؤں پہ اٹھانا پڑتا۔
خیر اس دفعہ ایک معمولی بخار اور گردوں کے عارضے نے تقدیر نے اسے میرے ہاتھوں سے جھٹکے کے ساتھ چھین لیا۔ چھ ماہ سوچا کہ سلمان بھائی پہ کوئی افسانہ لکھوں لیکن ہر دفعہ میری قوت اور برداشت نے میرا ساتھ نہیں دیا۔ یہ کوئی افسانہ نہیں ہے اور نہ ہی اس پہ کوئی افسانہ لکھا جا سکتا ہے، یہ تو حق تعالیٰ کو اپنی کہانی یا دکھڑا سنا رہا ہوں کہ وہ میری تکلیف سے واقف ہو سکے۔ میں سانگلہ ہل کالج میں تھا جب گھر والے اسے لاہور لے جانے کی ضد کر رہے تھے لیکن وہ اسے منا نہیں پا رہے تھے۔ مجھے اس بات سے بے خبر رکھنے کی کوشش کی گئی کہ اس کی طبیعت اسے موت کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ وہ وجدان تھا، چھٹی حس تھی یا کوئی اور قوت تھی جو میرے دل میں سرگوشیاں کر رہی تھی کہ کالج سے نکلو فوری گھر پہنچو۔
ادھر میں کالج سے نکلا اور اُدھر بھائی صاحب کے دل میں بھی کسی نے سرگوشی کر دی کہ آپ کے دوست آ رہے ہیں۔ ایک گھنٹے بعد میں گھر پہنچا تو مین گیٹ سے داخل ہوتے پہلی نظر اسی پہ پڑی۔ وہ تکیوں پہ ٹیک لگائے دروازے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ گویا مجھے دیکھ کے یوں خوش ہوئے جیسے شیرخوار بچہ اپنی ماں کو دور سے دیکھ کے ہوتا ہے۔ فی الفور اسے اٹھا کہ گاڑی میں بٹھایا۔ جمعہ کا دن تھا لاہورمیں داخل ہوئے تو جمعہ کی نماز پڑھی جارہی تھی۔ میو ہسپتال کا دروازہ نظر آنے لگ گیا۔ کچھ حوصلہ ہوا لیکن بھائی صاحب چپ چاپ بیٹھے تھے۔
مجھے لگا میری طرف غور سے دیکھ رہے ہیں اور کچھ کہنا چاہ رہے ہوں گے۔ اس کی پھٹی پھٹی سی آنکھیں مجھے اس کی موت کی خبر دے رہی تھیں۔ نبض دیکھی، ہلایا جلایا لیکن وہ مجھے چھوڑ کے جا چکے تھے۔ پھر بھی ہم ایمرجنسی پہنچے، معائنہ کروایا، ڈاکٹروں کے آگے ہاتھ جوڑے پاؤں پکڑے کے اسے کسی طرح زندہ کر دیں کچھ باتیں ابھی باقی ہیں لیکن بجلی کے جھٹکوں نے کام نہیں کیا۔ اس کے ہونے سے زندگی تھی، اس کے نہ ہونے سے پتا نہیں کیا ہے۔ اب بس اسے محسوس کرتا ہوں اور جب چاہے دیکھ بھی لیتا ہوں۔ میرا تخیل اتنا تگڑا تو ہے کہ اسے دیکھنا اتنا مشکل نہیں رہا۔

