1.  Home
  2. Blog
  3. Imtiaz Ahmad
  4. Umrao Jan Ada Fikri Tanazur Mein (1)

Umrao Jan Ada Fikri Tanazur Mein (1)

امراؤ جان ادا فکری تناظر میں (1)

مرزا رسوا نے اس ناول کو کسی محدود نقطہ نظر کے تحت نہیں لکھا۔ یہ ناول ایک لحاظ سے اپنے عہد کے لکھنؤ کی تہذیب و معاشرت کی تاریخ ہے۔ اس تاریخ کو واضح کرنے کے لیے اس میں جو کردار دکھائے گئے ہیں ان کے افعال و اعمال سے اس معاشرت کے اوہام و عقائد، میلانات و رجحانات اور افکار و خیال کی آئینہ داری ہوتی ہے۔ چنانچہ کرداروں کے عمل ہی سے سروکار نہیں رکھا گیا بلکہ مصنف نے ان کرداروں کے عمل کے پیچھے کار فرما افکار و رجحانات، احساسات و کیفیات اور نظریات و محرکات کو بھی منعکس کیا ہے۔ اردو ناول نگاری میں یہ امتیاز رسوا کو حاصل ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے اپنے ناول کے کرداروں کی داخلی کیفیات کی بہترین تصویر کشی کی۔

اس ناول میں بعض کرداروں کی تحلیل نفسی، مصنف کے گہرے نفسیاتی شعور کا پتا دیتی ہے۔ ناول کے بیشتر کردار اپنے تجربات و احساسات کو جس انداز میں بیان کرتے ہیں، اس سے مرزا رسوا کا انسانی نفسیات سے ادراک عیاں ہوتا ہے۔ اس ناول میں طوائفوں کی مخصوص زندگی کا عکس بھی ہے اور اس کے متعلق تجسس رکھنے والوں کے لیے حیرت کا ایک باب اور ایک سامان بھی۔ "امراؤ جان ادا" میں مخصوص طبقے کے ذہنی میلانات بھی ہیں اور طبقہ امراء کے ہاں پائے جانے والے اخلاقی انحطاط کا ذکر بھی ہے۔ اس ناول میں لکھنؤ کی معاشرت میں طوائف کی جو سماجی اہمیت اور حیثیت متعین ہو گئی تھی اُس کا پس منظر بھی موجود ہے۔ سب سے بڑھ کر مرزا ہادی رسوا نے ایک طوائف کے اندر کی پاک صاف عورت کو ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ اس عورت کے ساتھ قاری اپنے دل میں ہمدردی کی لہر اٹھتی ہوئی محسوس کرتا ہے۔

اس ناول میں رسوا نے لکھنؤ کی منہدم ہوتی ہوئی تہذیب کو ایک طوائف کی آنکھ سے دیکھا ہے اور اس کے نتیجے میں جو منظر ہمارے سامنے رکھا ہے وہ اپنی تمام جزئیات سمیت پوری زہر ناکی اور نشتریت لیے ہوئے ہے۔ لکھنؤ کے جس عہد کو ہادی رسوا نے موضوع بنایا ہے اُس عہد کا منظر نامہ طوائف کے وجود کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اور طوائف کے لفظ کے ساتھ مہذب، تہذیب یافتہ، شعر گو، شعر فہم، سخن شناس اور شیریں گو شخصیت کا خاکہ ابھرتا تھا۔ یہ فن اور تہذیب اس مخصوص طبقے کے ذریعے پورے معاشرے تک پہنچتی تھی۔

شعر و شاعری لکھنوی تہذیب کا جزو ہے۔ اس ناول میں نہ صرف شعر و شاعری کے چرچے ملتے ہیں بلکہ کہانی کی ابتداء محفل مشاعرہ سے ہوتی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب آئے دن مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ بیشتر یہ ہوتا تھا کہ کسی باذوق صاحبِ خانہ کے یہاں احباب سرِ شام آ بیٹھتے، نہ پہلے سے کوئی طرح مقرر کیا جاتا تھا اور نہ مضمون کی کوئی قید ہوتی اور نہ بہتوں سے وعدے لیے جاتے۔ ہر شاعر اپنی کوئی تازہ تصنیف پڑھتا۔ اگر کوئی تشریف نہ لا سکتا تو معذرت کے ساتھ اپنا تازہ کلام بھجوا دیتا۔ لکھنؤ میں ایسے شاعروں کی بھی کمی نہ تھی جو دوسروں کا مضمون چرا کر شعر موزوں کر لیا کرتے تھے۔ بعض حضرات تو دوسروں کے کلام کو ہی اپنے نام سے پڑھا کرتے تھے۔

اس معاشرے میں طوائفوں کی تان اور پائل کی جھنکار صاف سنائی دیتی ہے۔ اس وقت طوائفوں کے کوٹھوں کے علاوہ کوئی ایسا تفریحی ادارہ نہ تھا، جہاں عوام و خاص اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں اور باقی ماندہ افراد فرصت کے لمحات کو پُر مسرت طور پر گزار سکیں۔ تہذیب و معاشرے نے بھی ایسے اصحاب کو جو فنونِ لطیفہ کا ذوق رکھتے تھے طوائفوں سے رجوع کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ یہاں تک کہ نوابین کے بجٹ میں طوائفوں کے لیے ایک مخصوص مد ہوا کرتی اور شادی بیاہ کی رسمیں، نذر و نیاز اور سوز خوانی کے موقع پر طوائفوں کی موجودگی امارت کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔

پروفیسر خورشید الاسلام نے صحیح فرمایا ہے کہ "ان کی مخصوص افادیت کی بنا پر ان کی صحبت سے مولوی، رند، امیر اور غریب کسی کو عار نہ تھی، گویا طوائفیں بھی ان کے روزمرہ میں داخل تھیں۔ وہ ایک فصیح محاورہ تھیں جسے ہر شخص استعمال کر سکتا تھا۔ ۔ شیر و شکار میں، میدانِ جنگ میں، نجی محفلوں میں، مذہبی رسموں میں ان کا ہونا ضروری تھا۔ یہ اس زمانے کا مکتب، اس زمانے کا میکدہ اور اس کی محفل تھیں۔ "

شرفا کے یہاں عورتوں کی تعلیم معیوب تھی۔ اس کے برعکس طوائفیں اعلی تعلیم یافتہ، فنونِ لطیفہ سے کماحقہ واقف اور مزاج آشنا ہوا کرتیں۔ شستہ زبان بولتیں، ہر آنے والے کے رتبہ و منزلت اور مزاق کو پہچانتیں اور آدابِ محفل کی واقف کار ہوتیں اور صفات کی بنا پر نوابین اپنے بچوں کو آدابِ مجلس سیکھنے کے لیے ان کے کوٹھوں پر بھیجا کرتے تھے۔

ڈیرہ دار طوائفوں کے علاوہ پتریا بھی ہوا کرتیں۔ یہ سال میں ایک مرتبہ گاؤں گاؤں پھرا کرتیں اور امیر و رئیس کے مکانوں پر اُترتیں۔ جو کچھ اس کے مقدر میں ہوتا ملتا، کہیں مجرا ہوتا کہیں نہیں ہوتا۔ شادی بیاہ کے موقع پر بارات کے ساتھ کوسوں ناچتی گاتی چلی جاتیں۔ طوائفیں اپنی تمام تر صفات کے باوجود معاشرے میں محترم نہ تھیں۔ اور نہ ہی ان کی ہر جگہ آزادانہ آمد و رفت ممکن تھی۔ منشی احمد حسین کے یہاں منعقد مشاعرہ میں جب مرزا ہادی رسوا امراؤ جان کو شریک ہونے کی دعوت دیتے ہیں تو وہ برجستہ کہتی ہے کہ "مجھے چلنے میں کوئی عذر نہیں۔ لیکن صاحبِ خانہ کو میرا جانا ناگوار نہ ہو"

مرزا رسوا نے خانم کے طوائف خانہ کو اس خوب صورتی کے ساتھ سجایا ہے کہ لکھنؤی تہذیب کا یہ گوشہ پوری طرح روشن ہو گیا۔ امراؤ جان خانم کے کوٹھے کے متعلق مرزا رسوا کو بتاتی ہے کہ " خانم کا مکان تو آپ کو یاد ہو گا، کس قدر وسیع تھا، کتنے کمرے تھے۔ ان سب میں رنڈیاں رہتی تھیں۔ ۔ ہر ایک کا عملہ جدا تھا۔ ہر ایک کا دربار علیحدہ ہوتا تھا۔ خانم کا مکان تھا کہ پرستان تھا جس کمرے میں جا نکلو سوائے ہنسی مذاق گانے بجانے کے کوئی اور چربہ نہ تھا۔ ۔ ۔ نوار کے پلنگ ڈوریوں سے کسے ہوئے تھے۔ فرش پر ستھری چاندنیاں کھینچی ہوئیں۔ بڑے بڑے نقشی پاندان، حسن دان، خاصدان اور اُگالدان اپنے اپنے قرینوں سے رکھے ہوئے۔ "

نوابین کا یہ عالم تھا کہ اپنی وضعداری برقرار رکھنے کے لیے کوٹھی، علاقہ، زمین اور زیورات کو گروی رکھ دیتے تھے لیکن اُسے چھڑانے کی اُنہیں توفیق نہ ہوتی۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے اس وقت کی تہذیب نے مردوں کو یہ آزادی دے رکھی تھی کہ گھر سے باہر جو کچھ ان کے جی میں آئے کریں لیکن گھر کے اندر مکمل طور پر عورتوں کی حکمرانی ہوتی۔

نوابین کے دسترخوان پر پلاؤ، بریانی، متنجن، سفیدہ، باقر خانیاں، کئی طرح کے سالن، کباب، مربّے، مٹھائیاں، دہی، بالائی سب کچھ موجود ہوتا تھا۔ یوں کہہ لیں کے دنیا کی ہر نعمت دسترخوان پر موجود ہوتی تھی۔

الغرض مرزا ہادی رسوا کا ناول " امراؤ جان ادا "، جامِ جمشید سے کم نہیں جس میں قاری لکھنؤی تہذیب و معاشرت کے روشن و تاریک گوشوں کو ایک نظر میں دیکھ لیتا ہے۔ بالفاظِ دیگر "امراؤ جان ادا" لکھنؤی تہذیب و معاشرہ کی دستاویز ہے۔

Check Also

Khoobsurti Ke Kaarobar Ka Badsurat Chehra

By Asifa Ambreen Qazi