Taus e Chaman Ke Pinjre
طاؤس چمن کے پنجرے
فرش آراء اور حیدر علی نے جو طاؤس چمن کی طرز پر چبوترہ بنوایا تھا، اب اس کی وسعت اور خوبصورتی میں اضافہ ہو چکا تھا۔ اس کی دیکھ بھال اور انتظام کا ذمہ، اب فرش آراء اور حیدر علی کی بیٹی فرحت آراء نے اٹھا رکھا ہے۔ حیدر علی اور فرش آراء زندگی کے آخری ایام میں داخل ہو چکے ہیں۔ طاؤس چمن کی طرح اس چبوترے میں بھی چالیس مینائیں ہیں۔ ان میناوں کی خصوصیت یہ ہے، کہ انہیں طاؤس چمن کی طرح قید کر کے نہیں رکھا گیا۔ چبوترے کے چاروں طرف ہلکی سی باڑ ضرور ہے، لیکن یہ چبوترہ چھت کے بغیر ہے۔ مینائیں فرحت آراء اور اس کے دانہ پانی سے اس قدر مانوس ہیں، کہ وہ کھلی چھت کے باوجود پنجرے کی باڑ سے باہر نہیں جاتیں۔
فرش آراء نے اپنی بیٹی فرحت آراء کو پنجرے بنانے کا فن منتقل کر رکھا ہے۔ فرحت آراء کے ہاتھ میں ایک جادوئی شکتی ہے۔ وہ پرندوں کی شکل میں جو پنجرے بناتی ہے، وہ رات کے پچھلے پہر پرندے بن جاتے ہیں۔ اس لیے اس کے پنجروں کی دھوم پورے لکھنو میں یے۔
فرحت آراء کے پنجروں کی شہرت سے سلطان عالم واقف ہوتے ہیں، تو طاؤس چمن کی چالیس میناوں کے عوض، وہ تمام پنجرے خرید کر طاؤس چمن کی زینت بنا لیتے ہیں۔ بادشاہ سلامت شراب کے نشے میں، بالائی آرام گاہ کی کھڑکی سے، پرندوں کی لڑائیوں سے محظوظ ہوتے اور ہاتھیوں کی لڑائی پر واہ واہ کرتے۔ رات کے پچھلے پہر جب پنجرے پرندے بن جاتے، تو ان کے مختلف رنگوں اور آوازوں کی تعریف کرتے۔ پنجرے مختلف شکلوں میں تیار کیے گئے تھے۔ ان چالیس پنجروں میں سے ایک پنجرہ، پہاڑی مینا کی شکل میں بنایا گیا تھا۔ پہاڑی مینا رات کے پچھلے پہر حیدر علی، فرش آراء اور فرحت آراء کے درمیان ہونے والی گفتگو سنتی اور اسے یاد کر لیتی تھی۔ اسی دوران وہ لکھنو کی اس تاریخ سے آگاہ ہو چکی تھی، جب کالے خاں (فرحت آراء کے پرنانا) کو مینا کی چوری پر، وزیر عالم نے انگریزوں سے ساز باز کر کے، قید میں ڈلوایا اور پھر ناحق قتل کروا دیا۔
وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہو چکی تھی، کہ سلطان عالم کو ان کے وزیروں نے ہمیشہ سازشوں میں جکڑے رکھا۔ خاص طور پر وزیر عالم انگریزوں سے ملا ہوا تھا اور وہ محل کی ہر خبر انگریزوں تک پہنچاتا۔ بادشاہ جب بھی رعایا کا پوچھتے تو وزیر انہیں " سب اچھا ہے" کی خبر دیتے۔ غریب عوام اپنے مسائل لے کر دربار میں حاضر ہوتے، تو انہیں مقتل گاہ کی طرف لے جاہ کر بادشاہ کے وزیر قتل کر دیتے۔ رعایا کی بادشاہ تک رسائی میں، سب سے بڑی رکاوٹ اس کے وزیر تھے۔ وزیر ہمیشہ بکتے رہے ہیں اور بادشاہ ہمیشہ بہکتے رہے ہیں۔ شراب و شباب کی لذتوں میں اس قدر گم رہے، کہ اپنی سلطنت کے امور سے غافل ہوتے گئے۔
سلطان عالم کے دربار میں، طاؤس چمن میں رکھی ہوئی مینائیں، اچھی طرح سکھائی جاتی تھیں۔ انہیں مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے شاہانہ کلمات سکھائے جاتے۔ پنجروں کو طاؤس چمن میں منتقل کیے ابھی ایک ہی دن ہوا تھا، کہ اگلی ہی رات مہمان شاہی دربار میں حاضر ہو گئے۔
اس قلیل وقت میں ان پرندوں (پنجروں) کو کچھ سکھایا نہیں جا سکا تھا۔ مہمان پنجروں کے پرندے بننے کے انتظار میں، رات کے پچھلے پہر کا انتظار کرنے لگے۔
رات کے پچھلے پہر وزیر عالم کو بلایا گیا۔ طاؤس چمن کا دروازہ کھولتے ہی، سب پرندے اپنی اپنی بولیوں میں مشغول ہو گئے۔ کبوتر، تیتر، بٹیر، مور، مرغ اور چڑیا اپنی آوازوں سے مہمانوں کو محظوظ کر رہے تھے۔ پنجرے میں ایک طرف، سب سے الگ وہ مینا پروں میں چونچ دبائے مغموم بیٹھی تھی، جو بادشاہ اور وزیروں کے سارے راز جانتی تھی۔ بادشاہ اس کے منہ سے کچھ سننا چاہتے تھے۔ وہ اس کی طرف ہوئے تو اس نے اپنے پر پھڑپھڑائے اور بادشاہ کی طرف دیکھنے لگی۔ ایک پنجے کو اوپر اٹھا کر، بادشاہ کو قریب آنے کا اشارہ کیا۔ اس کے کان میں کہا، کہ آپ کے دربار تک کسی عام انسان کی رسائی نہ تھی، وزیر عالم رعایا کو آپ تک پہنچنے ہی نہ دیتا تھا۔ ورنہ فرش آراء سارے حقائق سے آپ کو آگاہ کر دیتی۔ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے آپ خرید کر یہاں لائے ہیں۔ کالے خاں کو بھی ناحق قتل کیا گیا۔ آپ کو سب اچھا ہے کی خبر دی جاتی رہی ہے۔ آپ شراب و شباب میں مشغول رہے ہیں۔ سلطنت کے امور سے غافل ہوتے گئے۔ بالآخر اس نے سارے حقائق سے پردہ اٹھا دیا۔
بادشاہ نے خون بھری آنکھوں سے وزیر عالم کی طرف دیکھا۔ وزیر عالم کا ماتھا ٹھنک گیا۔ بادشاہ نے وزیر عالم کا سر قلم کروا دیا۔ اسے طاؤس چمن کے نیچے دفن کرنے کا حکم دیا گیا۔ کھدائی کے دوران وہاں سے بہت ساری لاشیں برآمد ہوئیں۔ ان لاشوں کے خال و خط سے اندازہ ہو رہا تھا، کہ یہ عام لوگ ہیں۔ یہ وہی رعایا ہے جو بادشاہ کے دربار تک رسائی چاہتی تھی۔ بادشاہ نے سارے پنجرے فرحت آراء کو واپس کر دیے۔ اب طاؤس چمن خالی پڑا ہے۔ حیدر علی کو وزیر بنا دیا گیا ہے۔ جنسی لذت کے لیے بادشاہ نے جتنی بھی عورتیں دربار میں جمع کر رکھی تھیں، انہیں آزاد کر دیا گیا ہے۔ شراب کے مٹکے توڑ دیے گئے ہیں۔
فرحت آراء کا ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیا گیا ہے۔
کئی نئی امام بارگاہیں بنانے کا حکم دیا جا چکا ہے۔ آصف الدولہ کے نامکمل منصوبہ جات کو مکمل کرنے کی ٹھان لی گئی ہے۔ لکھنو کے ہر گھر پر علم سجا دیے گئے ہیں۔ ہر گھر میں مجلس کروانے کے احکامات صادر فرما دیے گئے ہیں۔ بادشاہ اور رعایا کے درمیان سارے فاصلے ختم کر دیے گئے ہیں۔ اب لوگ لکھنو کو واجد علی شاہ کے لکھنو سے پہچانتے ہیں۔ طوائفوں کو پھر سے تعلیم دی جانے لگی ہے۔ ان کی چوکھٹوں پر چلمنیں لٹک رہی ہیں۔ ان کے باقاعدہ وظائف مقرر کر دیے گئے ہیں۔
تمام قسم کے فسادات ختم ہو گئے ہیں اور لکھنو " پرامن" لکھو بن چکا ہے۔