Surkh Bheriya (2)
سرخ بھیڑیا (2)
بچوں کو اٹھانے کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو چکا تھا۔ ایک دو دفعہ بھیڑیے کو دیکھا گیا، اس پر نشانہ لگایا گیا مگر نشانہ چوک جاتا رہا۔ ایک ہفتے میں ایک بچے کا غائب ہونا معمول کی بات بن چکا تھا۔ لوگ اپنے پیاروں کی یاد اور غم میں نڈھال تھے۔ انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس مصیبت سے نکلا جائے۔
وہ حکومتی عہدیداران کے حضور بھی پیش ہوئے لیکن ان کی شنوائی نہیں ہوئی۔ انہوں نے ہر دروازے پر مدد کے لیے دستک دی لیکن انہیں نظر انداز کیا گیا۔ اب کوئی گھر ایسا نہیں تھا جس سے بچہ نہ اٹھایا گیا ہو۔ پورے گاؤں والے ہر روز بچوں کی تلاش میں نکلتے اور بے نیل مرام لوٹتے۔ ان کے سینوں میں غم پلتے رہے اور حکومتی عہدیداران کی لاپرواہی کا افسوس پرورش پاتا رہا۔ آدھے سے زیادہ لوگ گاؤں چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کی خوشیاں چھینی گئی تھیں۔ انہیں سرمایہ حیات سے محروم کیا گیا تھا۔ ان کے مستقبل کو داؤ پر لگایا گیا تھا۔ ان کی حب الوطنی کو ٹھیس پہنچائی گئی تھی۔ جس کا جدھر منہ لگا وہ ادھر چلا گیا۔
آہستہ آہستہ پورا گاؤں خالی ہو گیا۔ لوگوں کے گھر گر گئے۔ مال مویشی مر گئے، فصلیں اجڑ گئیں۔ اب گاؤں، گاؤں نہیں رہا، گویا کوئی میدان ہو۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ چند سال پہلے یہاں پر کچھ گھر تھے، لوگ بستے تھے، ہریالی تھی، چہل پہل تھی۔ لوگ تنظیموں میں شامل ہو گئے، کچھ لوگوں نے اپنی تنظیمیں بنالیں۔ لوگ بدلے کی آگ میں جھلس رہے تھے۔ ان کو بے سہارا کیا گیاتھا۔ ان کا خیال تھا کہ حکومتی عہدیداران اس ٹھکانے سے واقف ہیں جہاں ان کے گم شدہ بچوں کو رکھا گیا ہے۔ وہ انتقامی جذبے کے ساتھ شہر کا رخ کرتے اور شہر کی سڑکوں پر خون ہی خون پھیل جاتا۔ لوگوں کے سر، بازواور ٹانگیں سڑکوں پر پھیلی ہوئی نظر آتیں۔
اب آزادی پور گاؤں کا خوف ملک کے ہر شہر میں پھیل چکا تھا۔ عوام کے امن و امان میں استحکام باقی نہیں رہا۔ لوگ مارے مارے پھرتے ہیں اور اس خوف میں مبتلا ہیں کہ پتا نہیں کب ان کی زندگی ٹکڑوں میں بٹ کر ختم ہو جائے۔ آزادی پور گاؤں کے لوگ جو پہلے اپنے گاؤں میں ہنسی خوشی سے زندگی گزار رہے تھےاب ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ وہ طول و عرض میں پھیل چکے ہیں۔ جن ہاتھوں میں کبھی قلم ہونا چاہیئے تھا ان ہاتھوں میں بندوق اور بارود ہے۔ ان کی معصومیت ختم ہو چکی ہے۔ بہنیں اپنے بھائیوں کو یاد کر کر کے روتی ہیں۔ ان کی تصویروں کو چومتی اور سینوں سے لگاتی ہیں۔
لواحقین اس شش و پنج میں مبتلا تھے کہ ان کے اٹھائے گئے بچوں کو کہاں رکھا گیا ہوگا۔ وہ کسی بھی طور اپنے بچوں کو واپس لینا چاہتے تھے۔ اس کے بدلے میں وہ شہروں کا امن واپس لانے پر بھی تیار تھے۔ اعلیٰ سطح پر مذاکرات کا آغاز کیا جاتا ہے۔ حکومتی عہدیداران اور گاؤں آزادی پور کے چودھری لاڈے خان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک ماہ کے اندر گم شدہ بچوں کی تلاش کو یقینی بنانے پر اتفاق رائے قائم ہوا۔ ڈیڈ لائن تک حملے جاری رکھنے کا بھی کہا گیا۔
اس جنگل کی پچھلی طرف ایک پہاڑی سلسلہ تھا۔ وہاں پہنچنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ جو بھی انسان وہاں جاتا اسے مار دیا جاتا۔ ڈاکوؤں کے بڑے بڑے لشکر وہاں چوبیس گھنٹے موجود ہوتے۔ سرخ بھیڑیے نے انہی پہاڑوں میں ایک وسیع و عریض سرنگ بنا رکھی تھی۔ وہ سرنگ انسانی بچوں سے بھری پڑی تھی۔ بچوں کے علاوہ کچھ نوجوان بھی دور دراز کے علاقوں سے لاکر وہاں رکھے گئے تھے۔ البتہ کچھ جوانوں اور بچوں کی ہڈیاں بھی وہاں موجود تھیں۔ جو زندہ بچ گئے تھے ان کے خدوخال کافی حد تک تبدیل ہو چکے تھے۔
ایک چوتھائی بچے اب بھی تندرست لگ رہے تھے۔ بچوں کی زیادہ تعداد ذہنی معذوری اختیار کر چکی تھی۔ وہ سب کسی جنگلی جانور کی طرح لگتے تھے۔ جو کسی بھی وقت انسانی جان پر حملہ کر سکتا ہو۔ اس سرنگ میں ہر طرف بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ وہاں کچھ ہی وقت گزارا جاسکتا تھا، زیادہ دیر وہاں ٹھہرنا ممکن نہ تھا۔ انسانی بچوں اور جوانوں کے ساتھ ساتھ وہاں کافی تعداد میں سانپ بھی موجود تھے۔
حکومتی عہدیداران نے اپنی بے بسی کو بھانپ لیا۔ وہ کسی بھی طور اس سرنگ سے بچوں کو واپس نہیں لاسکتے تھے۔ انہیں کئی طرح کے مسائل کا سامنا تھا۔ ہر شہر میں امن و امان قائم کرنا بھی ان کا فرض اور مجبوری تھی۔ وقت کم تھا اور ساری صورت حال خراب ہوتی جا رہی تھی۔ کچھ دباؤ بھی ان پر تھا۔ لواحقین بچوں کی باقیات وصول کرنے پر بھی رضامند تھے تاکہ انہیں اپنے ہاتھوں سے دفنا سکیں۔ انہیں اتنا تو معلوم ہو کہ فلاں ڈھیری میں ان کے جگر کا ٹکڑا سو رہا ہے۔ یہ کسی کے لیے بھی باعث سکون نہیں ہوتا کہ اسے معلوم ہی نہ ہو کہ اس کا بچہ زندہ بھی ہے یا مر گیا۔ اسے قبر بھی نصیب ہوئی یا نہیں؟ وہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے یہ جاننا بے حد ضروری ہے۔
حکومتی عہدیداران تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے تھے اور لواحقین کو مسلسل جھٹلا رہے تھے۔ انہوں نے ایک خفیہ ملاقات کی۔ ایک دن کا تعین کیا گیا کہ فلاں دن فلاں جنگل کے پاس لواحقین کو بلایا جائے اور ان سے کہا جائے کہ ان کے بچے اسی جنگل میں ہیں۔ لہذا اس دن سب لواحقین اس جنگل کے پاس پہنچ گئے۔ جنگل میں بہت زیادہ خطرناک جانور تھے۔ وہ کسی بھی انسانی جان کو لقمہ بنا سکتے تھے۔ سب لواحقین بہت خوش تھے کہ وہ آج اپنے جگر کے ٹکڑوں سے ملیں گے۔ ان کے لیے نئے کپڑے بنوا کر ساتھ لائے تھے۔ ان کی پسند کے کھانے بھی لے کر گئے تھے۔
کچھ ہی دیر میں حکومتی عہدیداران بھی وہاں پہنچ گئے۔ انہوں نے لواحقین کے ہاتھ کمر کے پیچھے باندھ دیے اور ان کی جیبوں کی تلاشی لی۔ ان سے کپڑے اور کھانا چھین لیا۔ جب ہر طرف اندھیرا چھا گیا تو انہوں نے انہیں جنگل کے درمیان میں پھینک دیا۔ انہوں نے لواحقین کا کھانا بڑے مزے سے کھایا اور کپڑے اپنے بچوں کے لیے لے کر گھروں کو روانہ ہو گئے۔ صبح آنکھ کھلی تو ہر شہر میں امن تھا۔ کسی سڑک پر خون تھا نہ جسم کے ٹکڑے۔