Sunehri Robot (1)
سنہری روبوٹ (1)
حاکم جس گھر کی دائیں طرف خشکی کے ایک اونچے ٹیلے پر بیٹھا تھا وہ گھر کبھی مکمل طور پر اس کی دسترس میں تھا۔ اس گھر کے درودیوار، چھتیں اور فرش حتی کہ تمام چیزیں جن سے مل کر کوئی گھر یا گھونسلہ بنتا ہے اس کی اپنی تھیں۔ ماضی کی ایک دھندلی سی فلم حاکم کے ذہن کو مفلوج کرنے ہی لگی تھی کہ اچانک اس نے سامنے پتے کھاتے ہوئے درختوں کو دیکھا۔ درختوں کا اس طرح پتوں کو کھانا اس کے لیے ایک انہونی چیز تھی۔ درخت اس کے دوست تھے اور اس نے انہیں خون پلا پلا کر بڑا کیا تھا۔ اب وہ خون نایاب ہو چکا تھا جو کسی وقت میں ان درختوں کی خوراک ہوا کرتا تھا۔
ان کی چاروں اطراف میں پانی سے بھرے ہوئے دریا روانی کے ساتھ بہہ رہے تھے۔ ان دریاؤں میں خون سے لت پت انسانی اعضاء اور وافر مقدار میں انسانی خون نظر آتا۔ لیکن ان اعضاء او خون میں بارود کی بُو شامل ہونے کی وجہ سے درختوں کو کراہت محسوس ہوتی اور وہ اپنی ہی شاخوں سے گرے ہوئے پتوں کو کھا کر اپنا جہنم بھر لیتے۔ حاکم ان درختوں کی خودداری اور غیرت کا معترف تھا۔ وہ سوچتا کہ انسانوں کو انسانوں کے خون سے بارود کی بُو کیوں نہیں آتی؟ وہ ان اعضاء کو آخر کیوں اتنی آسانی سے کھا لیتے ہیں اور ان کا کس قبیلے سے تعلق ہے؟
حاکم نے ایک تھرتھراہٹ سی محسوس کی اور آنکھیں بند کر کے درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر کچھ یاد کرنے لگا۔ اب اس کی آنکھوں کے سامنے وہی گھر تھا جو کبھی مکمل طور پر اس کے اختیار اور اس کی پہنچ میں تھا۔ وہ گھر ابھی بھی اس کے پاس ہے لیکن وہ اس کا نہیں ہے۔ حالانکہ تمام قانونی تقاضے بھی پورے کیے گئے تھے، تمام قانونی کارروائیاں بھی تب ہی مکمل ہوگئی تھیں جب اس گھر کا بٹوارہ کیا گیا۔
گھر مربع شکل میں تھا اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرنے والی دیوار اخلاقی طور پر گھر کے صحن کے بالکل درمیان میں سے گزارنی چاہیئے تھی لیکن اس دیوار کو خلاف بنیاد اٹھایا گیا تھا۔ حاکم کے پاس آدھا گھر ہے اور باقی آدھا گھر اس کے جڑواں بھائی جابر کے پاس ہے۔ گھر کی تقسیم کا فیصلہ دونوں بھائیوں کی مرضی کے مطابق نہیں ہوا تھا۔ اس میں تقسیم کرنے والے تیسرے شخص نے سراسر جانبداری سے کام لیا تھا۔ لیکن حاکم آج بھی اس تقسیم سے خوش ہے کیوں کہ اس کے بیوی بچے اس آدھے گھر میں سر چھپانے کے قابل تو ہیں۔
روبوٹ کی مچائی ہوئی تباہی نے بھی حاکم کو خوفزدہ کر رکھا تھا۔ گو کہ اس نے اسے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا لیکن اب اس پر اس کا اختیار نہیں رہا۔ اختیار ہو بھی تو وہ عارضی طور پر ہوتا ہے کیوں کہ بعض دفعہ اس پر کوئی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ گھر کی حفاظت کی ذمہ داری روبوٹ کو سونپی گئی تھی۔ حاکم زمینداری کے کاموں میں اس قدر الجھ جاتا کہ اسے گھر واپس آنے میں اکثر دیر سویر ہو جاتی تھی۔ گھر ایک سنسان علاقے میں ہونے کی وجہ سے کئی حوالوں سے محفوظ نہیں تھا۔ اس کی زمین گھر سے کافی دور تھی۔ وہ وہاں سے اٹھا اور گھر میں داخل ہوتے ہی بلند آواز سے بیوی بچوں کو مخاطب کیا، بچے کھیل کود میں مگن تھے جبکہ رضیہ چائے کی پتیلی مانجھ رہی تھی۔
اس نے کہا سب لوگ جلدی لنگر پانی کر لیں اور ضروری سامان درانتیاں، بیل گاڑی، رسیاں اور جوتے وغیرہ ایک جگہ پر تیار کر کے رکھ لیں۔ فصل پک کے تیار ہو چکی تھی۔ گندم کی کٹائی وہ ہمیشہ خود ہی کرتے۔ کنبہ کافی بڑا تھا اور انہیں ان کاموں کے لیے کسی اور کی طرف دیکھنے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی۔ وہ اندر گیا، کام والے کپڑے پہنے اور باہر آ کر ایک کچی تھڑی پر چوکڑی مار کر بیٹھ گیا۔ رضیہ کی چھوٹی بہن کے بچے بھی کئی دنوں سے وہاں آئے ہوئے تھے اور حسب روایت اس دفعہ بھی انہوں نے کافی دن وہاں رہنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔
پچھلی دفعہ بھی گندم کی کٹائی پر یہ بچے ادھر ہی تھے۔ انہوں نے خوب جان لڑا کر کام کیا تھا، اس کے بدلے میں حاکم نے انہیں نئے کپڑے اور جوتے دلوائے تھے۔ اس رحم کا ان کے سر پر باپ کے سایہ کا نہ ہونا بھی تھا۔ اب کی بار بھی حاکم کے ذہن میں یہی باتیں چل رہی تھیں۔ اپنے آگے چلتے، دھول اڑاتے اور مٹی سے کھیل مستیاں کرتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر اس کے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے۔ وہ اندر ہی اندر خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات کے ہاتھوں مسلسل بہک رہا تھا۔ بچے جب ادھر ادھر پگڈنڈیوں پر چڑھ دوڑتے تو وہ انہیں انتہائی شفقت اور محبت بھرے لہجے میں واپس آنے کو کہتا۔
زمین دریا کے کنارے پر تھی اور اس پر اگنے والی گھاس بوٹیاں بھی کافی دبیز اور گہری رنگت کی تھیں۔ اب دھول اور مٹی ختم ہو چکی تھی۔ اس نے سب بچوں کو بیل گاڑی پر بٹھا لیا اور انہیں سختی سے تاکید کی کہ اب کوئی بچہ اس سے نیچے نہیں اترے گا۔ اسے فکر تھی کہ شام تک ساری فصل کی کٹائی مکمل ہو جائے اور اس کے دن پھر جائیں۔ بیوی بچوں کا راشن ختم ہو چکا تھا اور اس سے یہ کیفیت بالکل بھی برداشت نہیں ہوتی تھی، پھر بچوں کے تن ڈھانپنے بھی بے حد ضروری تھے۔ فصل کی کٹائی کے موسم میں ہمیشہ اس کا سینہ چوڑا ہوجاتا اور ان لمحوں کا انتظار اسے فصل کی بوائی کے بعد سے ہی شروع ہو جاتا۔
اب وہ اپنی گندم کی فصل کے نزدیک پہنچنے والے تھے۔ اچانک اس نے دیکھا کہ فصل کے عین درمیان میں ڈھیر سارے کوئے فضا میں ایک دائرے کے اندر (کاں کاں کرتے کبھی پر کھولتے اور کبھی بند کرتے) شور برپا کیے ہوئے ہیں۔ درانتی کی کرچ کرچ کی آواز بھی مسلسل اس کے کانوں میں محسوس ہو رہی تھی۔ وہ حیران بھی تھا اور پریشان بھی۔ اس نے بلند آواز میں پکارا اور پوچھا کہ کون ہے؟ لیکن آگے سے کوئی جواب نہ آیا۔ وہ خوف اور حیرت کی کیفیت میں مبتلا ہوگیا اور تمام بچوں کو پیچھے ہٹ جانے کو کہا۔ وہ گندم کی فصل میں کود پڑا، تیزی سے قدم بڑھاتا ہوا وہ فصل کے درمیان میں پہنچنے کی کوشش میں تھا۔
وہ اندر سے ڈرا ہوا تھا کہ آخر معاملہ کیا ہے۔ اس کی فصل ہمیشہ سلامت رہی ہےاور وہ پوری فصل اٹھاتا رہا ہے۔ اچانک ایک ٹانگ پہ مسلسل ایک دائرے میں برق رفتاری سے گھومتا ہوا روبوٹ اس کے سامنے تھا اور اس کے دونوں ہاتھوں میں درانتیاں تھیں۔ وہ کبھی اسے دیکھتا اور کبھی فصل کو۔ اس کا سر چکرا گیا کہ روبوٹ اس کی فصل میں (بھی) پہنچ گیا۔ روبوٹ نے اسے اس کے بولنے سے پہلے للکار کر کہا خبردار آگے مت بڑھنا۔ تمہیں معلوم ہے کہ میں مکمل طور پر تمہارے اختیار (کنٹرول) میں نہیں ہوں۔ تم مجھے نہ ہی کنٹرول کر سکتے ہو اور نہ ہی کوئی نقصان پہنچا سکتے ہو۔ حاکم کپکپاتے ہوئے بولنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔
ت۔ ت۔ ت۔ تو۔ تو۔ تم
ہاں میں۔
مگر تم یہاں کیوں؟
اب مجھے کہیں بھی جانے سے کوئی روک نہیں سکتا۔
لیکن تم نے تو میرا سب کچھ برباد کردیا۔۔ حتی کی میری فصل بھی۔۔
برباد نہیں کیا، اپنی اجرت وصول کر رہا ہوں۔
کیسی اجرت؟
میں نے تمہارے گھر کی حفاظت کی، تمہارے بہت کام کیے۔
جاری۔۔