Kitab e Dil
کتابِ دل
کہتے ہیں کہ شاعروں کو الہام ہوتا ہے۔ اکثر شاعر تو آورد سے بھی کام لیتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ الہام یعنی آمد اور آورد ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اسی آمد اور آورد کے تناظر میں ہی افلاطون نے شاعروں پر الزامات عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ، شاعر لوگ عوام اور معاشرے کو گمراہ کرتے ہیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اس کی مثالی ریاست میں شاعروں کے لیے جگہ نہیں ہو گی۔ خیر یہ تو اس کی سوچ اور ذاتی خیال تھا جس کو اس کے شاگرد خاص یعنی ارسطو نے جھٹلایا۔
ارسطو نے آورد اور نقالی کے حق میں مدلل گفتگو کر کے افلاطون کے نظریات کا رد کیا۔ اس تمہید کا مقصد آمد یا آورد کے حق میں بات کرنا نہیں ہے بلکہ دونوں کو تسلیم کرنا ہے۔ آمد و آورد کا مجموعہ کتابی صورت میں ڈاکٹر مختار احمد عزمی سے موصول ہوا۔ سب سے پہلے اس کتاب کے نام نے متاثر کیا۔ کیا اس کتاب کا نام "کتابِ دل" اس لیے رکھا گیا کہ اس میں دل کی کیفیت بیان کی گئی ہے؟ ڈاکٹر مختار احمد عزمی منہاج یونیورسٹی لاہور میں صدر شعبہ اردو اور ڈین بھی رہ چکے ہیں۔
ڈاکٹر مختار احمد عزمی میرے ایم فل کے استاد ہیں۔ اپنے استادوں کے بارے میں آپ زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ راقم نے بھی ان کے بارے میں کافی معلومات اکٹھی کی ہیں، جو باقی رہ گئی تھیں وہ "کتابِ دل" کا دیباچہ پڑھنے کے بعد حاصل ہو گئیں۔ ایسا بالکل بھی نہیں لگتا کہ وہ حادثاتی شاعر ہیں۔ شعر کہنے کے جراثیم ان کی طبیعت میں پیدائشی معلوم پڑتے ہیں۔
انہوں نے 1971ء میں گورنمنٹ کالج سول لائنز ملتان میں، اپنے اساتذہ کرام جناب عاصی کرنالی، جناب حسین سحر، جناب جابر علی سید، جناب فیاض تحسین اور جناب عبدالخالق عزمی کی موجودگی میں، اقبال کی زمین میں لکھی ہوئی اپنی غزل پیش کی۔ شعر کہنے کا سلسلہ بچپن سے جاری تھا لیکن ایک باقاعدہ غزل گو شاعر کے طور پر انہیں ان کی اسی غزل نے متعارف کروایا۔ نمونہ کلام پیش خدمت ہے۔
؎
شاید تیری قسمت کی خبر آئی ہو دینے
جو گنبد حالات میں گونجی ہے صدا دیکھ
کشکول، محبت کا لیے ہاتھ میں کب سے
عزمی کو بھی تو دل کے دریچے میں کھڑا دیکھ۔
"کتابِ دل" دیکھنے کو شاعری کی کتاب سہی لیکن محسوس کریں تو دل کی باتیں ہیں۔ ڈاکٹر مختار احمد عزمی کا مشاہدہ بہت فعال ہے۔ انہوں نے اپنے اردگرد جو دیکھا یا محسوس کیا اسے کاغذ پر اتار دیا۔ کتابِ دل میں حمد، نعت، منقبت، نظم آزاد اور معریٰ کے علاوہ غزلیں اور قطعات بھی موجود ہیں۔ تنہائی ایک ایسا موضوع ہے جو کسی بھی شاعر کے ہاتھوں کی پوروں میں خود قلم بن کر آ جاتا ہے۔ مجھے اس حوالے سے ڈاکٹر مختار احمد عزمی کی ایک نظم بہت پسند آئی۔ ملاحظہ فرمائیں۔
؎
خالی خالی ٹینس کورٹ
تنہا نیٹ کی ویراں آنکھیں
کس کا رستہ دیکھ رہی ہیں؟
کھیلنے والا آئے کوئی
آئے۔ آ کر کھیل جائے۔
ناول اور افسانے میں دیہات کی عکاسی کے بارے میں سنتے اور پڑھتے رہے ہیں۔ دیہات کی مٹی کا خمیر انسان کے اندر ایک الگ قسم کی نمی نمی سی خوشبو پیدا کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک نظم میں دیہات کی مٹی کی خوشبو سونگھی جا سکتی ہے۔
؎
میں کہ باغوں، بہاروں کا
سرسبز کھیتوں کا پالا ہوا ہوں
کتنے رنگین موسم کی مہکار
میرے بدن میں رچی ہے
میرے منطقے کی ہوائیں معطر ہیں
صحبتیں منور ہیں
شامیں مزین ہیں
مگر اب یہ محسوس ہوتا ہے مجھ کو
کہ مرے درختوں کی
باغوں، بہاروں کی
رنگین موسم کی
سب کی ہوا بانجھ ہے۔ اور مجھ کو
اسی بانجھ پن کی فضاؤں میں جینا مقدر ہوا ہے۔
ایک حقیقی شاعر اور ادیب دنیا داری، مال و دولت اور زمین و جائیداد کی ہوس نہیں رکھتا۔ ایسے مسائل کا وہ جب کھلی یا بند آنکھوں سے مشاہدہ کرتا ہے تو وہ دکھی ہو جاتا ہے۔ ان تمام قباحتوں پر بولنے کا اسے حق ہوتا ہے اور وہ خاموش رہنا گناہ کبیرہ جانتا ہے۔ دنیا والوں کے دیے ہوئے رنج اسے چبھنے لگ جاتے ہیں۔ پھر یہی چبھن وہ قاری کو دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس حوالے سے مختار احمد عزمی کا نمونہ کلام پیش خدمت ہے۔
؎
اس پاتال جہنم میں
ساری سوچیں الٹی ہیں
الٹے الٹے ہاتھ اور پاؤں
ساری لاشیں الٹی ہیں
پیٹ تو سب کا ایک ہی جیسا
ہاتھ ہزاروں ہیں۔
کہتے ہیں شاعری کتھارسس یعنی جذبات کے انخلاء کا موجب بنتی ہے۔ بعض دفعہ شاعر مصرعوں میں ہنسی بکھیر رہا ہوتا ہے تو کبھی اس کی روتی ہوئیں آنکھیں کسی نظم کا وزن بن جاتی ہیں۔ اولاد بیٹی ہو یا بیٹا اس کا بچھڑ جانا کسی قیامت صغریٰ سے کم نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر مختار احمد عزمی کا بیٹا بھی ان سے جدا ہوا ہے جس کی جدائی کا سارا کرب ان کی ایک نظم "لال کبوتر" میں دیکھا جا سکتا ہے۔
؎
دانہ دنکا چگنے والے پنکھ پکھیرو
صبح سویرے گھر سے نکلیں
شام کو گھر لوٹ آئیں
لیکن میرا لال کبوتر
ایسا گھر سے نکلا
شام ڈھلی اور سورج ڈوبا
رین اندھیری آئی
لیکن وہ نہ لوٹا
من کی چھتری سونی سونی
تن کا ڈربہ خالی خالی
اب تو میرے لال کبوتر
لوٹ کے آجا۔۔ آجا!
ہر قہقہے کو ہنسی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بعض دفعہ اندرونی غم چھپانے کے لیے ہمیں بیرونی قہقہوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ یہ بھی یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ قہقہوں کی نوعیت بالکل مختلف ہو سکتی ہے۔ ہنسی مزاح کی طرف رجحان قدرتی بھی ہو سکتا ہے اور خود ساختہ بھی۔ بہر حال اس زمانہ آشوب میں خود کو مزاح کی طرف لے جانا بڑی بات ہے۔ خود ہنسنا اور دوسروں کے چہروں پر ہنسی کے آثار پیدا کرنا ایک فن ہے۔ ڈاکٹر مختار احمد عزمی کی طبعیت میں مزاح بھی رکھا ہوا ہے۔ اس حوالے سے ان کا ایک قطعہ بنام Facebook ملاحظہ فرمائیں۔
؎
جس کو تم سیٹھ سمجھ بیٹھے ہو میرے پیارے
وہ کوئی بندہ مجبور بھی ہو سکتا ہے
فیس بک کے نہ کبھی فیس پہ جانا عزمی
پردہ حور میں لنگور بھی ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر مختار احمد عزمی نے اپنی شاعری میں سیاست، حکومت، رومانس، مزاح، ذاتی تجربات اور دل کی باتوں کو جگہ دی ہے۔ وہ ایک لمحہ تالی بجاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو اگلے ہی پل وہ خود کو تنہائی کے سپرد کر دیتے ہیں۔ انہوں نے نہایت عام موضوعات پر لکھتے ہوئے کوئی خوف یا ڈر محسوس نہیں کیا۔ وہ ایک ہی وقت میں خوشیاں اور غم دونوں کو قاری کے ساتھ بانٹنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر مختار احمد عزمی نے چھوٹی بحر کی غزلیں کہی ہیں اور آزاد نظم کو تو انہوں نے اس کی اصل پہچان دی ہے۔
رباعی یا قطعہ ایک انتہائی مختصر نظم ہوتی ہے جس میں ایک پوری کہانی یا واقع بیان کر دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہاں بھی انتہائی پھرتی سے اپنا شعری ذوق استعمال کیا ہے۔ ان کی شاعری میں تمثال اور محاکات نگاری کے اعلیٰ نمونے موجود ہیں۔ وہ پردے میں بات کرنے کا فن بھی جانتے ہیں، جہاں ضروری سمجھتے ہیں وہاں اشاروں کنایوں میں بات کر کے گزر جاتے ہیں۔ یہاں میں نے ڈاکٹر صاحب کی ان نظموں پر بات کی ہے جو مجھے بغیر گٹھلی کے کھجوریں معلوم ہوتی ہیں۔