Khwaja Ghulam Fareed
خواجہ غلام فرید
لالی ایک دفعہ پھر سے عجیب وسوسوں اور بے سبب اداسیوں میں گھر چکا تھا۔ وہ اکثر ایسی صورتحال میں سفر کرنے کو ترجیح دیتا۔ فراٹے بھرتی گاڑی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ پوری رات کے سفر کے بعد گاڑی نے اسے خان پور پہنچانا تھا۔ نیند اور تھکاوٹ سے اس کا برا حال تھا۔ کچھ بیماری اور ڈراؤنے خوابوں نے اس کے اعصاب کو جکڑ رکھا تھا۔ اسی کیفیت میں وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ڈرا ہوا، سہما ہوا ڈرائیور کے ساتھ پچھلی نشست پر پاؤں رانوں میں پھنسائے بیٹھا ہوا تھا۔ رستے میں کبھی اس کی آنکھ لگ جاتی تو کبھی وہ جھٹ سے اٹھ بیٹھتا۔ ملتان سے ہوتی ہوئی گاڑی ہیڈ پنجند پر پہنچی تو اچانک ایک دفعہ پھر اس کی آنکھ کھلی۔
اس نے زاہد جام کو کال ملائی اور اسے بتایا کہ بس وہ قریب پانچ بجے صبح خان پور اڈے پر پہنچ جائے گا۔ پانچ سے کچھ اوپر کا وقت ہو چکا تھا جب وہ خان پور اڈے پہ اترا۔ زاہد جام اسے لینے وہاں پہنچ چکا تھا۔ وہ گھر پہنچے تو لالی کا نیند سے برا حال تھا۔ بیماری کی وجہ سے اس کے پاؤں میں کافی سوجن محسوس ہو رہی تھی۔ زاہد جام نے اسے بیٹھک میں بستر لگا دیا، اور اسے کہا کہ وہ تھوڑی دیر سو جائے۔ لالی جب دو تین گھنٹے کی نیند سے اٹھا تو ناشتے کی میز تیار تھی۔ انہوں نے ناشتہ کیا اور پروگرام کے مطابق انہیں وقار حبیب کے پاس " کوٹ سمابہ " پہنچنا تھا۔
سردی کی شدت، بیماری، اور تھکاوٹ کے باعث لالی نے کوٹ سمابہ جانے سے معذرت کر لی۔ اس کے اسرار پر زاہد جام نے وقار حبیب کو کوٹ سمابہ سے خان پور بلا لیا۔ وقار حبیب کے آنے کے بعد وہ تینوں کچھ دیر رسمی گفت و شنید میں لگے رہے۔
ہنوز لالی کے چہرے کے تاثرات ویسے ہی تھے۔ گم شدہ، حیران کن، تھکن سے چور، بیماری سے نڈھال، افسردگی، مایوسی، اداسی، اور ڈراؤنے خوابوں کا نہ رکنے والا سلسلہ اور ان کا خوف۔ وقار حبیب نے اگلے پروگرام کے لیے چولستان جانے کی بجائے، بے نظیر پل پر جانے کو ترجیح دی۔ بے نظیر پل راجن پور مین روڈ پر بننے والا ایک کلو میٹر لمبا پل اپنی نوعیت اور ساخت میں ایک عجوبہ تھا۔ دریائے سندھ پر بننے والا یہ پل رحیم یار خان کو راجن پور سے ملانے والی ایک اہم کڑی تھی۔ وہ تینوں موٹر سائیکل پر سوار ہو کر نکلے۔ قریب تیس کلو میٹر کا یہ سفر انہیں موٹر سائیکل پر ہی طے کرنا تھا۔ دریائے سندھ کی مچھلی بھی اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ انہوں نے مچھلی کھانے کا پروگرام بنایا اور ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ بے نظیر پل پر پہنچ چکے تھے۔ پل کے دونوں اطراف میں چھوٹی چھوٹی دکانیں اور ہوٹل ابھی بند پڑے تھے۔
وہ تینوں دریا کے اندر خشکی میں اتر گئے۔ ریت کے اوپر چھوٹی چھوٹی میزیں سجائے کچھ چائے فروش، گاہکوں کے انتظار میں تھے۔ انہوں نے وہاں بیٹھ کر چائے سگریٹ پی۔ سب کا بھوک سے برا حال تھا۔ ابھی مچھلی فروشوں کی چہل پہل میں کافی دیر تھی۔ وہاں دریائے سندھ کی ریت پر بھی سارا وقت نہیں گزارا جا سکتا تھا۔
انہوں نے وہاں سے دربار خواجہ غلام فرید جانے کا پروگرام بنایا۔ خواجہ غلام فرید کا نام سنتے ہی لالی کے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ پچھلے کافی دنوں سے ایک خواب دیکھ رہا تھا، جس میں اسے بابا غلام فرید اپنے دربار پر آنے کا حکم دیتے۔ وہ اس سے پہلے بابا غلام فرید گنج شکر کے دربار پر حاضری دے چکا تھا۔ وہ اکثر پاک پتن جاتا رہا ہے۔ لیکن اس کے اس خواب کی سمت درست نہیں تھی۔ وہ اکثر خواب میں دربار کے باہر کھڑا ہوتا اور غلام فرید کا نام اس کی آنکھوں کے سامنے ہوتا۔ لیکن یہاں معاملہ بالکل الٹ ہوتا جا رہا تھا۔ یہ دربار بابا فرید گنج شکر کا نہیں، بلکہ خواجہ غلام فرید کوٹ مٹھن شریف والے کا تھا۔ لالی اس دربار سے ناواقف تھا۔
اس کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا۔ وہ سوچوں کے بھنور میں پھنستا جا رہا تھا کہ یہ خواجہ غلام فرید صاحب تھے، جو اس کے خواب میں آتے اور اسے اپنے دربار پر حاضر ہونے کا حکم دیتے۔ اس نے تو کبھی اللہ والوں سے واسطہ ہی نہیں رکھا تھا۔ وہ تو کبھی کوئی مراد لے کر کسی دربار پہ نہیں گیا۔ وہ تو دنیا سے پیار کرنے والا شخص ہے۔ وہ تو زاہد بھی نہیں ہے اور عابد بھی نہیں ہے۔ اس نے تو کبھی ڈھنگ سے نماز روزے کی بھی پابندی نہیں کی۔ اسے تو سارے کلمے بھی نہیں آتے تھے۔
اس سب کے باوجود خواجہ غلام فرید اس کے خواب میں کیونکر آ سکتے تھے۔ وہ تو ہمیشہ تصوف کی " ت " سے بھی ناواقف رہا ہے۔ صوفیاء کے اتنا نزدیک ہونا اس کے مقدر میں کیسے ہو سکتا ہے۔ انہی سوچوں میں گم وہ بے نظیر پل سے اگلی طرف راجن پور کی دھرتی میں پہنچ چکا تھا۔ دربار کو دور سے دیکھ کر ہی اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ وہی گنبد ہے، جو وہ ہر رات خواب میں دیکھتا تھا۔ دربار کے اندر خواجہ غلام فرید کی قبر پہ لگی ان کے نام کی تختی بھی وہی تھی، جو وہ خواب میں دیکھتا تھا۔ وہی سبز رنگ کی تختی کے اوپر، نستعلیق اردو میں لکھا سفید رنگ میں خواجہ غلام فرید کا اسم، اس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔
لالی نے وہاں کھڑے ہو کے دعا کی، کہ اے میرے مولا، اس ہستی پر بھی رحم و کرم فرما، مجھ ناچیز پر بھی رحمت اور نور برسا۔ زاہد جام اور وقار حبیب صحن میں بیٹھے لنگر کھا رہے تھے۔ لالی نے دو نفل ادا کیے اور تیز دھوپ میں بیٹھ گیا۔
اپنے دونوں ہاتھوں میں منہ کو دبوچے، لالی آنکھیں بند کیے وہیں صحن میں بیٹھا، اک عجیب سا سکوت اور سکون محسوس کر رہا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے اس کا وجود ہلکا ہو گیا ہو، اس کے گناہ جھڑ گئے ہوں، اس کا سارا بوجھ اتر گیا ہو، اس کے سارے خدشات دور ہو گئے ہوں، اس کے سر سے سارا بوجھ سرک گیا ہو۔ دربار سے نکل کر وہ واپس بے نظیر پل پر آ چکے تھے۔ مچھلی فروشوں نے دکانیں سجا رکھی تھیں۔ انہوں نے سیر ہو کر کھانا کھایا۔ کھانا کھانے کے بعد وہ تینوں کوٹ سمابہ چلے گئے۔ تھکن سے چور لالی جلد ہی نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ خواب میں اسے پھر خواجہ غلام فرید ملے اور کہا کہ صبح پھر حاضری دینا۔ میرا لنگر درویش لوگوں کو نصیب ہوتا ہے اور تم میرا لنگر کھائے بغیر واپس نہیں جا سکتے۔