Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Imtiaz Ahmad/
  4. Gull Badan (2)

Gull Badan (2)

گل بدن(2)

وہ کافی دیر ایسے ہی ایک دوسرے کو مسلتے رہے۔ اچانک وہ ایک طرف گر گیااور اس کے نرم بازو پر سر رکھ کر سیدھا لیٹ گیا۔ ابھی بھی اس کے بدن کی بو قاری کو مسحور کر رہی تھی۔ اس نے سگریٹ سلگایا اور پرانی باتیں چھیڑ دیں۔ وہ دونوں بچپن کے دوست تھے۔ ایک ساتھ کھیلتے تھے اور کھلونے ٹوٹ جانے کی صورت میں ایک دوسرے کی شکایت لگا کر خوشی محسوس کرتے تھے۔ وہ چاندنی راتوں میں چھپن چھپائی کھیلتے۔ وہ کب جوان ہوگئے وقت نے پتا ہی نہیں چلنے دیا۔ اب وہ ماں سے ملنا چاہتا تھا۔ نوشی نے اسے بتایا کہ پچھلے ہی ہفتے اس کی ماں مر گئی تھی۔

یہ خبر سنتے ہی گل بدن دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ اس نے زندگی کی سب سے بڑی خوشی کو کھو دیا تھا۔ وہ اٹھ کے بیٹھ گیا اور دونوں ہاتھوں میں اپنا منہ چھپا لیا۔ نوشی نے خود کو چادر سے ڈھانپ لیا اور اسے حوصلہ دینے کے لیے اپنے ساتھ لگا لیا۔ اسے بتایا کہ مرتے وقت اس کی ماں کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی تھی۔ اس کے منہ سے صرف تمہارا ہی نام مسلسل نکل رہا تھا۔ اس کی قبر تمہارے ابا کی قبر کے دائیں طرف بنائی گئی ہے۔ وہ اسی وقت ماں کی قبر پہ جانا چاہتا تھا۔ اس نے خود کو سنبھالا اور اوپر اٹھا۔ اس نے آخری بار نوشی کو گلے لگایا، وہ رو رہی تھی۔ وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ وہ اس سے شادی کر لے۔

گل بدن ہمیشہ انکار میں سر ہلا دیتا۔ آج بھی شادی کے سوال پر اس نے جواب دیا، دیکھو تم جانتی ہو کے میرے سر کی قیمت مقرر ہے۔ پولیس ہر وقت میری تلاش میں رہتی ہے۔ میں کسی بھی وقت مارا جاسکتا ہوں۔ مجھے مرنے کا کوئی ڈر اور غم نہیں ہے۔ لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ میرے ساتھ تم بھی مار دی جاؤ۔ میں تمہیں اپنے بغیر مرتا ہوا برداشت کر سکتا ہوں لیکن اپنے ساتھ ذلالت کی موت مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ میری سانسیں اب گنی جا چکی ہیں۔ میں نے بہت سارے لوگوں کا قتل کیا ہے۔ اگر میں خود کو پیش بھی کر دیتا ہوں تو میں جانتا ہوں کہ میرے ساتھ انصاف نہیں ہو گا۔

وہ ساری باتیں سن رہی تھی۔ اچانک بولی کہ ہمیشہ یاد رکھنا، مجھے تمہارے ساتھ مرنے میں ہی راحت ملے گی، لیکن میں تمہاری خواہش کا احترام کروں گی۔ یار کی مرضی میں ہی میری مرضی ہے۔ جیسا تم چاہوگے ویسا ہی ہو گا۔ اب گل بدن وہاں سے سیدھا قبرستان چلا گیا۔ وہ ماں اور باپ کی قبروں پہ کھڑا مسلسل رو رہا تھا۔ اچانک اسے ایک سایہ سا اپنی طرف آتا دکھائی دیتا ہے۔ اچانک اس سائے نے اس کی ماں کا روپ دھار لیا۔ اس نے لپک کر اپنی ماں کو گلے لگایا۔ ماں کو گلے لگا کے اس کی ساری تھکن دور ہو گئی۔ کچھ ہی لمحوں بعد وہ وہاں پہ اکیلا کھڑا تھا۔

اب وہ بوجھل قدموں کے ساتھ قبرستان سے نکل رہا تھا۔ قبرستان سے نکل کر وہ بس اسٹاپ پر گیا۔ وہاں سے اس نے ملتان کی گاڑی پکڑی اور چند گھنٹوں کی مسافت کے بعد وہ ملتان میں کھڑا تھا۔ پولیس سے بچنے کے لیے اس نے داڑھی بڑی کر لی تھی۔ سر پر سفید ٹوپی رکھ کر وہ کسی مسجد کا امام ہی لگتا تھا۔ وہ سارے ڈاکو دریائے سندھ کے قریب کچے کے علاقے میں پناہ لے چکے تھے۔ ان کے پاس اسلحہ و ایمونیشن وافر مقدار میں موجود تھا۔ راجن پور کے ڈی پی او نے ان کے گرد اپنا حصار کافی تنگ کر لیا تھا۔

اس کے ساتھی ڈاکو آئے اور اسے گڈو بیراج سے لے کر جنگل کی طرف چلے گئے۔ وہ اتنے خطرناک علاقے میں اس سے پہلے کبھی نہیں رہا تھا۔ ہرطرف کانٹے دار جھاڑیاں اور بہت خطرناک جنگلی جانور تھے۔ وہ جرائم کی دنیا کو چھوڑ دینا چاہتا تھا۔ وہ اس بھاگتی ہوئی زندگی سے تنگ آ چکا تھا۔ لیکن اب اس کے پاس جینے اور کھونے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ الیکشن ہونے کے بعد نئی حکومت آ چکی تھی۔ اس حکومت نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس نے آرمی کے ساتھ مل کر پنجاب کے میدانی علاقوں میں آپریشن شروع کر دیے۔ اب اسے لگ رہا تھا کہ اس کی زندگی بہت تھوڑی رہ گئی ہے۔

لیکن اس کو مرنے کا خوف بالکل بھی نہیں تھا۔ اسے افسوس تھا کہ وہ بہت سارے خواب پورے نہیں کرسکا۔ کچھ خواب اس کے اپنے تھے، کچھ اس کی ماں کے اور کچھ اس کی بہنوں کے۔ اسے کہیں پر بھی سرکاری نوکری نہیں ملی۔ وہ اپنی تعلیم بھی مکمل نہیں کرسکا تھا۔ ایک فیکٹری سے شروع ہونے والی اس کی پیشہ وارانہ زندگی پولیس کی ایک گولی پر ختم ہونے والی تھی۔ کچے کا علاقہ ایک محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ وہ جس جنگل میں پناہ لیے ہوئے تھا، اس کے چاروں اطراف میں دریا تھا۔ دریا تین اطراف سے خشک تھا۔

پانی والی طرف سے پولیس کے اندر آجانے کا ہر وقت خدشہ رہتا تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے چاروں طرف سکیورٹی کے انتہائی سنجیدہ انتظامات کر رکھے تھے۔ اس نے اپنی زندگی میں سب کچھ کھو دیا تھا۔ پیٹ کی بھوک مٹاتے مٹاتے وہ موت کے منہ میں آ کھڑا ہوا تھا۔ اس کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر اس کے گاؤں کے چودھریوں نے اس کا گھر مسمار کر دیا اور اس کی زمین پر بھی ناجائز قبضہ کر لیا۔ چودھریوں کی چودھراہٹ واپس آ چکی تھی۔ ان کا ایک ہی دشمن تھا اور وہ بھی اب پنجاب سے باہر تھا اور اس کے واپس آنے کی کوئی امید نہ تھی۔

وہ جس گینگ میں شامل تھا، اس میں وہ حکم کا پابند تھا۔ ایک وقت تھا کہ وہ ایک گینگ کا مالک تھا۔ اس کے ہر حکم کی تعمیل ہوتی تھی۔ اس کا گینگ اب ختم ہو چکا تھا۔ اس کے خاتمے کے ساتھ ہی راوی کے نواح میں امن پیدا ہو چکا تھا۔ وہ رات کی تاریکی میں کشتی کے ذریعے دریا پار کرتے اور کشمور کے علاقے میں وارداتیں کر کے واپس جنگل میں آ جاتے۔ پولیس آپریشن شروع ہوا تو سب ڈاکو زیر زمین سرنگوں میں چھپ گئے، اس دوران وہ بہت تگڑی مزاحمت کرتے رہےاور پولیس پارٹی کو پیش قدمی سے روکتے رہے۔

بگڑتی ہوئی صورت حال کو دیکھتے ہوئے رینجرز کو طلب کر لیا گیا۔ اس کے علاوہ کثیر تعداد میں آرمی بھی آن پہنچی۔ ایک منصوبہ بندی کے تحت فضائی آپریشن کیا گیا۔ پورے جنگل پر بم برسائے گئے۔ یکے بعد دیگرے دو بم اس پر گرے۔ اس کا دھڑ ریزہ ریزہ ہو چکا تھا لیکن اس کا سر سلامت رہا۔ اس آپریشن میں مرنے والوں کے چہرے میڈیا پر دکھائے گئے۔ نوشی نے گل بدن کا چہرہ پہچان لیا۔ اس نے چار ماہ تک گھر سے باہر نہ نکلنے کا تہیہ کر لیا۔

Check Also

Apni Jaron Se Miliye

By Arif Anis Malik