Altaf Gohar Hayat Aur Adabi Khidmaat
الطاف گوہر حیات اور ادبی خدمات
ممتاز سکالر، دانشور، ادیب اور بیوروکریٹ الطاف گوہر کے نام سے کون واقف نہیں ہے۔ ان کے سیاسی کالموں اور ادبی تحریروں نے ایوانوں اور زندانوں میں اپنی روانی کو جاری رکھا۔ ادب، سیاست اور صحافت میں ان کا کردار ہمیشہ متحرک رہا ہے۔ ان کی شاعری اور تنقیدی کاوشوں میں ان کے ماضی الضمیر کی جھلک نظر آتی ہے۔ حلقہ ارباب ذوق کو میرا جی اور الطاف گوہر کی بدولت ہی نمایاں اور برحق مقام حاصل ہوا۔
تنقید میں ان کے اندر میرا جی کی جھلک اور شاعری میں اختر شیرانی کا عکس نظر آتا ہے۔ "الطاف گوہر، حیات اور ادبی خدمات" مقالہ "کتابی صورت" میں ڈاکٹر محمد اجمل دانش سے موصول ہوا تو راقم کی خوشی دیدنی تھی۔ ڈاکٹر محمد اجمل دانش گورنمنٹ اسلامیہ گریجویٹ کالج سانگلہ ہل میں شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔ صاحب اخلاق و مروت اور نستعلیق انسان ہیں۔ علمی و ادبی حلقوں میں ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔
کتاب مذکورہ کو اجمل دانش نے پانچ ابواب تک محدود رکھا ہے۔ پہلے باب میں انہوں نے الطاف گوہر کا سوانحی خاکہ پیش کیا ہے۔ ان کی پیدائش سے ادبی اوج تک کے سفر کی کہانی کو تفصیلاً بیان کیا ہے جس سے الطاف گوہر ہمارے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ الطاف گوہر کی زندگی کے نشیب و فراز، معاشی بدحالی اور مختلف سرکاری نوکریوں میں سے گزر کر ان کا سی ایس پی آفیسر بننا، سیکرٹری اور وزیر کے عہدوں پر فائز ہونے تک کا سفر انتہائی باریک بینی سے بیان کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر محمد اجمل دانش نے تمام تر حالات و واقعات کو یوں کاغذ کی لائینوں میں سمویا ہے کہ جیسے انہوں نے کافی وقت الطاف گوہر کے ساتھ گزار رکھا ہو یا پھر آمریت اور جمہوریت کے دنوں میں وہ الطاف گوہر کی انگلی پکڑ کر ان کے ساتھ پارلیمنٹ لاجز کا چکر بھی لگاتے رہے ہوں۔ دوسرے باب میں الطاف گوہر کے ادبی عہد کا ذکر کیا گیا ہے۔ میرا جی کا الطاف گوہر کے اندر چھپے ہوئے شاعر کو ڈھونڈنا اور الطاف گوہر کی تمام تر ادبی سرگرمیوں اور ادبی زندگی کے آغاز کی روداد کو بیان کرتے کرتے اجمل دانش میرا جی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
الطاف گوہر کا میرا جی سے متاثر ہونا ان سے انس و محبت کا تعلق قائم ہونا، الطاف گوہر اور منٹو میں نظریاتی اختلافات کا جنم لینا، گویا قاری الطاف گوہر کو پڑھتے پڑھتے میرا جی اور منٹو سے بھی آشنائی حاصل کر لیتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اجمل دانش نے تحقیق اور انتہائی تفصیل میں ایک تعلق قائم کر دیا ہے۔ وہ تحقیق کی پہلی یا دوسری سیڑھی پر رکنے اور پھسلنے کی بجائے تمام سیڑھیاں کامیابی سے قدموں تلے روندنے کے قائل نظر آتے ہیں۔ انہوں نے تیسرے باب میں الطاف گوہر کو بطور نقاد پیش کیا ہے اور ان کا ڈیجیٹل ایکسرے کرنے کی کوشش کی ہے۔
الطاف گوہر کی تنقید پر بھی میرا جی کی گہری چھاپ ہے۔ انہوں نے کئی ایک تنقیدی مضامین (شعری اور نثری) لکھے ہیں اور اس ضمن میں وہ لفظ مستعار لینے کے قائل نہیں ہیں۔ الطاف گوہر وسیع مطالعہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مغربی ادب کو بھی پڑھ رکھا ہے اور انگریزی ادب میں فروغ پانے والے ادبی اور تنقیدی نظریات پر بھی نظر رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر اجمل دانش نے چوتھے باب میں الطاف گوہر کی کالم نگاری کو شامل کیا ہے۔ یہاں بھی دانش نے تفصیل میں جانا ہی مناسب سمجھا ہے۔ ایک ایک کالم کا تنقیدی جائزہ اور عنوان لکھنے کے ساتھ ساتھ تمام تر کالموں کی نوعیت اور پس منظر پر بھی اجمل دانش نے انتہائی دانش کے ساتھ بات کی ہے۔
پانچویں باب میں الطاف گوہر کو بطور شاعر عوام کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے۔ نظم کے ساتھ الطاف گوہر نے انصاف کیا ہے۔ جب شاعر آزاد نظم لکھنے میں شرم محسوس کر رہے تھے تو الطاف گوہر نے نظم کو نثریت کے قریب لا کھڑا کیا۔
جلتے جلتے بجھ گیا دل
جلتے جلتے دل
خوب سحر بیدار ہوئی
شمع شبستان سرد ہوئی
اور جو شے تھی گرد ہوئی
رات کی محفل کا حامل
جلتے جلتے بجھ گیا دل
لوٹ کے پھر کیا آئیں گے
پھر کیا آئیں گے۔
الطاف گوہر کی شاعری میں تخیل کی کارفرمائی نہیں بلکہ خارجیت اور داخلیت کا حسین امتزاج ہے۔ اسیری کے دوران میں الطاف گوہر کی شاعری خون میں لت پت نظر آتی ہے۔ اجمل دانش ایک صاحب اسلوب و طرز لکھاری ہیں۔ وہ تحقیق اور اس کے تمام تر تقاضوں سے واقف نظر آتے ہیں۔ مضبوط ڈکشن کے مالک ہیں اور لفاظی کے ماہر بھی۔ انہوں نے تحقیقی خلاء کو جزئیات نگاری کا سہارا لے کر پر کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اجمل دانش کے اس مقالے سے ہماری ملکی سیاسی صورت حال بھی کھل کر سامنے آتی ہے۔
الطاف گوہر چونکہ سیاست میں سرگرم رہے اور اسی تناظر میں تمام تر سیاسی سرگرمیاں اور سقوط ڈھاکہ وغیرہ بھی قاری پر عیاں ہوتا ہے۔ کیسے مارشلائی حکومتوں نے جمہوریت میں سوراخ کیے، تقسیم ہند سے جڑی تمام تر کہانیاں، ملک کا دولخت ہونا، ایوب خان اور بھٹو کے کارنامے، یہ سب حقائق کتاب ھٰذا کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ الطاف گوہر کی حیات اور ادبی خدمات کے تناظر میں اجمل دانش نے اس تحقیق کے ذریعے الطاف گوہر، میرا جی اور منٹو کو دریافت کیا ہے۔
اجمل دانش نے غیر روایتی اسلوب ایجاد کیا ہے۔ خون کی شمعیں جلا کر تحقیقی منازل کو طے کیا ہے اور مستند حوالہ جات کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک معتبر کتاب قاری کے ہاتھ میں تھمائی ہے۔ انہوں نے موضوع کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ مقالہ ھٰذا کو بےجا طوالت سے بچا کر انہوں نے اپنی شخصیت اور تحریر میں ٹھہراؤ کی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔
بلاشبہ یہ کتاب اردو ادب میں ایک نیا اضافہ ثابت ہونے کے قابل ہے۔