Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Imtiaz Ahmad/
  4. Pakistan, Establishment Aur Taqat Ki Jaren

Pakistan, Establishment Aur Taqat Ki Jaren

پاکستان، اسٹیبلشمنٹ اور طاقت کی جڑیں

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ 75 برس بعد سیاست میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو شکست دی جا سکتی ہے تو یہ فقط آپ کی خام خیالی ہے۔ اگر عمران خان یا کوئی دوسری سیاسی جماعت بندوق والوں کو شکست دے کر انتخابات میں اکثریت بھی حاصل کر لیتی ہے تو یہ اسٹیبلشمنٹ کی فقط ایک علامتی یا ظاہری، شکست ہی ہو گی کیوں کہ طاقت کی ڈوریاں پھر بھی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں رہیں گی۔

طاقت کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے غریب کو فقط سرکس میں بٹھا کر یہ تاثر دیا ہے کہ طاقت اب آپ کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن کیا تالیاں بجانا طاقت کی علامت ہے؟ پاکستان میں اگر اس تاثر کے ساتھ کوئی الیکشن جیتتا ہے کہ اس مرتبہ تو فوج بھی ساتھ نہیں تھی پھر بھی ہم نے میدان مار لیا ہے تو یہ بھی محکمہ نیوٹرل، کی کامیابی ہے۔ کامیابی یہ ہو گی کہ کپڑے دھل جائیں گے، ایکسل صرف کا استعمال کیے بغیر سیاست میں مداخلت کے داغ صاف ہوں گے۔

یہ گیم فقط پاکستان تک محدود نہیں ہے۔ دنیا میں جب بھی طاقت کا کوئی نظام بدلا ہے تو اس سے فقط چند مہینوں یا برسوں کے لیے ہی عوامی بے چینی دور ہوئی ہے۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ ڈوریاں تو ابھی تک مداری کے ہاتھ میں ہیں، جنہوں نے ہاتھ کی صفائی دکھائی ہے۔ عوام کی طاقت سے انکار نہیں لیکن یہ فقط اور فقط ٹیشو پیپر کی طرح استعمال ہوتے ہیں اور پاکستان میں بھی ہمیشہ یہی ہوا ہے۔

حسنی مبارک کے جانے سے مصر میں چہرہ بدلا ہے لیکن طاقت کا سرچشمہ ابھی تک گہری جڑیں رکھنے والی اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ چہرہ تیونس میں بھی بدلا لیکن چند برس بعد طاقت پھر بازی گروں کے ہاتھوں میں ہے۔ شام میں لاکھوں لوگ مرے لیکن طاقت کی لونڈی ابھی تک اشرافیہ کے برتن صاف کر رہی ہے۔ سوڈان میں عوامی احتجاجی تحریک میں عمر البشیر حکومت کا خاتمہ ہوا لیکن طاقت کس کے ہاتھ میں آئی؟

عوام کے ہاتھ میں؟ نہیں! اُسی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں آئی، جو عشروں سے شطرنج کھیل رہی ہے، فقط ایک چہرہ بدلا ہے۔ لیبیا کے عوام بھی اسی زعم میں مبتلا تھے لیکن آج کہاں کھڑے ہیں؟ امریکہ میں بھی ڈیموکریٹس ہوں یا ری پبلکنز یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، فقط چہرے بدلتے ہیں کیوں کہ چہرے بدلنے سے عوامی بے چینی میں کچھ دیر کے لیے وقفہ آ جاتا ہے۔

پاکستان میں بھی عوامی بے چینی عروج پر ہے۔ اپوزیشن (آج کی حکومت) بھی ہر بات پر کہتی تھی کہ لاڈلے کو جی ایچ کیو کی حمایت حاصل ہے اور ایک بہت بڑا روایتی سیاسی طبقہ فوج پر انگلیاں اٹھا رہا تھا۔ اب ہوا فقط یہ ہے کہ وہ انگلیاں نیچے کی گئی ہیں۔ آگے بھی یہی ہو گا، جو آج انگلیاں اٹھا رہے ہیں، بس ان کی انگلیاں نیچے کی جائیں گی۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی جڑیں اتنی گہری ہو چکی ہیں کہ نا چاہتے ہوئے، بھی وہ ہر الیکشن میں حصہ دار ہی رہتی ہے۔ اگر پانچ یا چھ سیاسی جماعتیں ہیں تو وہ ان سب جماعتوں کے سیاسی حصہ دار ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت، جس مرضی تاثر اور فوج مخالف نعرے کے ساتھ میدان میں آ جائے، آپ یہ حصہ داری ختم نہیں کر سکتے۔

ہاں یہ تاثر ضرور قائم کر سکتے ہیں کہ ہم نے اسٹیبلشمنٹ کو شکست دے دی ہے۔ لیکن یہ فقط ایک تاثر ہے، ایک الوژن ہے۔ طاقت کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ طاقت نے آپ پر حکمرانی کرنی ہے اور چہرے بدل بدل کر کرنی ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ ناراض بھی جماعتیں اسی وقت ہوتی ہیں، جب اپنا حصہ وصول نہیں ہوتا۔ جونہی وزارتیں ملتی ہیں تو پھر سے نئی محبت، کی کہانی شروع ہو جاتی ہے۔

اگر اقتدار کے کیک میں مناسب حصہ وصول نہیں ہوا، اگر سیاسی جماعت اور اس کے کارکن ناراض ہیں تو یہ سب مل کر کچھ عرصے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں، ریلیاں نکال سکتے ہیں، وقتی طور پر ٹف ٹائم دے سکتے ہیں لیکن طویل المدتی طور پر اسٹیبلشمنٹ کو نہیں ہرا سکتے۔ اسٹیبلشمنٹ کے پاس لڑنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے کیوں کہ ریسورسز، عدلیہ، میڈیا، پلاننگ، بندوق سب کچھ ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور اگر نہیں ہوتا تو زیر اثر ضرور ہوتا ہے۔

عوام یا ہجوم کو کنٹرول کرنے کے طریقے ایجاد کرنے والے ماسٹر مائنڈ ایڈروڈ برنیز کا ایک قول ہے، "عوام کی منظم عادات کو تبدیل کرنا، ان کی رائے سازی اور دماغ سازی کرنا جمہوری معاشرے کا ایک اہم عنصر ہے۔ جو معاشرے کے اس ان دیکھے میکنیزم کو کنٹرول کرتے ہیں، اصل میں وہ ہی غائبانہ طور پر حکومت کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ غائبانہ حکومت برسر اقتدار حکومت سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔

معاشرے کو منظم جمہوری انداز میں چلانے کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ ہم پر حکومت کی جاتی ہے، ہمارے ذہنوں کے سانچے بنائے جاتے ہیں، ہمارے ذوق تشکیل دیے جاتے ہیں اور ہمارے خیالات تجویز کیے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ وہ افراد کر رہے ہوتے ہیں، جن کے بارے میں ہم نے کبھی سنا ہی نہیں ہوتا۔ "

Check Also

Colombo Mein Guzra Aik Din

By Altaf Ahmad Aamir