Husn Hazir Hai Mohabbat Ki Saza Paane Ko
حسن حاضر ہے محبت کی سزا پانے کو
نوویں کلاس تھی، ہم سب سہمے سہمے بیٹھے۔ تب استاد کا تصور ہی اس جلاد سے کم نہیں تھا، جس کے ہاتھ میں ہمہ وقت ایک ڈنڈا ہوتا ہے۔ ایسے میں ایک شخص کلاس میں داخل ہوتا ہے، تمام ڈیسکوں پر بیٹھے ہوئے سہمے چہروں پر نظر ڈالتا ہے اور پوچھتا ہے کہ تم میں سے کبھی کسی نے محبت کی ہے؟
ساری کلاس کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ ہمارے ذہن میں تھا کہ یہ کیا بات ہوئی؟ کوئی استاد ایسا سوال کیسے کر سکتا ہے؟ اور یہ محبت والا جرم یا بدتمیزی ہم کیوں کریں گے؟
اصل میں ہمیں سکھایا ہی یہی گیا تھا کہ کسی لڑکی سے محبت کرنا بری بات ہے، اچھے اور شریف لڑکوں کا شیوہ نہیں ہے۔ لیکن عصمت اللہ صاحب نے کلاس میں آتے ہی اس نظریے کو توڑنا شروع کر دیا تھا۔ یہ گورنمنٹ ہائی اسکول میں ہمارے اردو کے استاد تھے اور مجھے آج تک ان کی باتیں نہیں بھولیں۔
ان کے بولنے کا ایک مخصوص انداز تھا، جسے لہجے میں کسی نے نرمی اور مٹھاس کوٹ کوٹ کر بھر دی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر تم لوگوں نے محبت نہیں کی تو پھر دنیا میں کیا لینے آ گئے ہو؟
تم لوگوں کو محبت کا ذائقہ چکھنا چاہیے، تم کو کہنا چاہیے۔
حسن حاضر ہے محبت کی سزا پانے کو
کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو!
مجھے اس پہلی کلاس میں ان کی تمام باتیں عجیب لگیں لیکن پھر دسویں کلاس پاس کرنے تک میں ان کا پکا پکا مرید بن چکا تھا۔
آپ کو زندگی میں دو قسم کے استاد ملتے ہیں۔ ایک قسم کے استاد آپ کو کہتے ہیں کہ بس دن پورے کرو! کونسا تم لوگوں نے کوئی بڑا افسر بن جانا ہے؟ اور دوسرے قسم کے استاد آپ کو ہر روز ایک نیا خواب عطا کرتے ہیں۔ عصمت اللہ صاحب انہی اساتذہ میں سے تھے، جو آپ اور آپ کی سوچ کے لیے نئے دروازے کھول دیتے تھے۔
ماسٹر عبدالغفور صاحب عربی پڑھاتے تھے۔ ساتویں کلاس میں انہوں نے مجھے ایک دن بلایا اور پنجابی میں کہنے لگے، "مغلاں دا کوئی وی منڈا اج تک میٹرک پاس نئیں کر سکیا، توں ویں اٹھویں پاس نئیں کرنی"۔ (مغلوں کا کوئی بھی لڑکا آج تک میٹرک پاس نہیں کر سکا، تم نے بھی آٹھویں کلاس سے آگے نہیں جانا)۔
میں نے دل ہی دل میں کہا کہ ماسڑ جی! میں آپ کو میٹرک پاس کرکے دکھاوں گا۔
پھر ماسٹر اکبر گوجرانوالہ سے آتے تھے۔ چھوٹے قد کی وجہ سے سارے اسکول میں وہ "ماسٹر ریوڑی" کے نام سے مشہور تھے۔
ایک مرتبہ کہنے لگے، تم لوگوں نے یہاں ہی گائیں بھینسیں چرانی ہیں، پڑھنے لکھنے والے لڑکے اور قسم کے ہوتے ہیں۔ میرا بیٹا رات گیارہ گیارہ بجے تک پڑھتا ہے، گوجرانولہ کی بہترین اکیڈمی میں جاتا ہے، ایسے لڑکے آگے ترقی کرتے ہیں، تم لوگوں نے بس مال ڈنگر ہی چرانا ہے۔
لیکن عصمت اللہ صاحب الگ تھے، وہ کہتے تھے غزلیں یاد کرو، ناول پڑھا کرو، خود اشعار لکھا کرو، ٹوٹ کر محبت کرو۔
مجھے اسکول لیول پر تقریریں کرنے کا شوق تھا اور عصمت اللہ صاحب مجھے تقریریں لکھ کر دینے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے نوشہرہ ورکاں کا کوئی تقریری مقابلہ ایسا نہیں تھا، جس میں میں شرکت نہ کرتا ہوں۔
ان کے علاوہ شفیق صاحب انگریزی کے استاد تھے۔ اگر وہ نہ ہوتے تو شاید میں نوویں بھی پاس نہ کر پاتا۔
اصل میں مجھے انگلش نہیں آتی تھی اور ٹیوشن کا کوئی انتظام بھی نہیں تھا۔ آٹھویں کلاس میں ایک مرتبہ انگریزی کے استاد نے اتنا مارا کہ میں گھر سے بھاگ گیا لیکن وزیر آباد کے قریب سے واپس لوٹ آیا۔ کرایہ نہیں تھا تو کنڈیکٹر نے نیچے اتار دیا۔ وہاں ایک شخص نے کہا کہ بچہ ہے، اسے لے جاو کیوں کرایہ مانگتے ہو؟
کنڈیکٹر نے کہا کہ "پا جی، اے گھروں نس کے آیا جے، ایدھی کوئی خالہ راوالپنڈی نئیں جے رہندی"۔
وہاں کھڑے اس شخص نے مجھے بڑے پیار سے سمجھایا کہ دیکھو بیٹا!اگر گھر سے بھاگ کر آئے ہو تو واپس چلے جاو، کہاں دھکے کھاو گے؟ اس کی بات سمجھ آئی اور شام سے پہلے میں گھر واپس آ گیا لیکن کسی کو پتہ نہ چلا کہ میں سارا دن کہاں تھا؟
خیر ساتویں کلاس میں اے بی سی سیکھی تھی، آٹھویں کلاس میں سارا سال "گُڈ موننگ سر" کہتا رہا لیکن نوویں کلاس میں شفیق صاحب نے بتایا کہ لفظ "گڈ مارننگ" ہوتا ہے۔ شفیق صاحب نے اتنی اچھی انگلش پڑھائی کہ وہ دو سال میری بنیاد بن گئے۔
تو بات عصمت اللہ صاحب کی ہو رہی تھی۔ کبھی کبھار وہ اپنی غزلیں یا کوئی نعت سناتے اور پھر ہمیں کہتے کہ کیا لکھا ہے؟ یا کوئی غزل یا شعر سناو اور کلاس میں شعرو شاعری کا مقابلہ شروع ہو جاتا۔
ہمارے ساتھ ایک حافظ صاحب ہوتے تھے، وہ اکثر عصمت اللہ صاحب کی نعت۔
اک درد کہ پنہاں ہے، میرے قلب و جگر میں
ہر وقت میں رہتا ہوں، مدینے کے سفر میں
پڑھا کرتے تھے۔
وہ پنجابی تھے لیکن عصمت اللہ صاحب کو میں نے زندگی میں کبھی اونچی آواز میں بولتے نہیں دیکھا۔ ان کے گھر میں بچے بڑے سبھی ایک دوسرے کی اتنی تعظیم کرتے تھے کہ میں حیران رہ جاتا۔
میں نے زندگی میں اتنی تعظیم کسی کے گھر کے بچوں میں نہیں دیکھی۔
عصمت اللہ صاحب کہا کرتے تھے کہ مستقبل میں اگر ہو سکے تو اپنا کاروبار کرنا، اگر تم یہ کہو کہ میں وہاں نوکری کرتا ہوں، فلاں جگہ اچھی کرسی پر بیٹھتا ہوں تو مجھے کوئی خاص خوشی نہیں ہوگی۔ لیکن اگر تم کہو گے کہ ماسٹر جی! میں اب اپنی ریڑھی لگاتا ہوں، پیاز بیچتا ہوں، ٹماٹر بیچتا ہوں لیکن میں مالک ہوں تو میں تمہیں اٹھ کر گلے لگاوں گا۔
دوسرا وہ کہا کرتے تھے غریب ہونا کوئی بری بات نہیں لیکن گندے مندے کپڑے پہننا، گندے جوتے پہننا بری بات ہے۔ استری نہیں ہے نہ سہی لیکن اسے دھونا اور صاف کپڑا پہننا تو آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
پھر ایک مرتبہ انہوں نے اپنا قصہ سنایا کہ میں جب کالج میں پڑھتا تھا تو جوتے پھٹے ہوئے تھے لیکن میں نے کالج کے قریب جھاڑیوں میں ایک برش سا چھپایا ہوا تھا۔ میں کالج داخل ہونے سے پہلے اپنے پھٹے ہوئے بوٹ ہمیشہ صاف کرتا تھا تاکہ وہ دھول سے اٹے ہوئے ناں ہوں۔
میں آخری مرتبہ کوئی تین برس پہلے ان سے ملا تھا۔ بلکہ مجھے پتہ چلا کہ وہ بیمار ہیں تو میں ان سے ملنے ان کے گھر گیا۔ ان کی باتیں اب بھی اتنی ہی جاندار اور نئی تھیں، جتنی مجھے نوویں کلاس کے پہلے پیریڈ میں لگی تھیں۔
رات کو کبھی کبھار ریڈیو پر پرانے گیت اور غزلیں اب بھی سنتے تھے لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد سے تصوف کی طرف رجحان کافی زیادہ بڑھ چکا تھا۔ ایک ہفتہ پہلے فیس بک پر ان کے بیٹے اور ہمارے دوست مظفر محمود نے لکھا کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ مجھے یوں لگا کہ جیسے میری ذات کی دیوار میں سے کسی نے ایک اینٹ نکال لی ہو۔
مجھے نوویں جماعت کا وہ پیریڈ یاد آ گیا، جب انہوں نے کہا تھا کہ اگر زندگی کو سمجھنا ہے تو بیٹا محبت کرو اور ٹوٹ کر کرو!
یہ کہو کہ حسن حاضر ہے محبت کی سزا پانے کو
کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو
عصمت اللہ صاحب اردو کے وہ استاد تھے، جنہوں نے مجھ جیسے ہزاروں پتھروں کے دلوں کو دھڑکنا سکھایا تھا، جنہوں نے انسان کو انسان سمجھنا سیکھایا تھا، جنہوں نے ہماری آنکھوں میں بہتر مستقبل اور امید کے دیے جلائے تھے۔
اللہ ان کے درجات بلند فرمائے!