Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Imtiaz Ahmad/
  4. Hum Bahut Roye Wo Jab Yaad Aaya

Hum Bahut Roye Wo Jab Yaad Aaya

ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا

اس دن ہماری آنکھوں میں چمک چولہے میں جلنے والی آگ سے بھی تیز تھی۔ ہاتھ سے بنائے ہوئے مٹی کے چولہے کے دائیں جانب بیٹھی ماں جی کچھ پکانے میں مصروف تھیں۔ جونہی آگ مدہم پڑتی تو وہ کوئی اوپلا یا سوکھی لکڑی آگے دھکیل دیتیں، کچھ شرارے دھوئیں کے ساتھ ساتھ ہوا میں اڑتے اور دیکھتے ہی دیکھتے جگنوؤں کی طرح گم ہو جاتے، بالکل اسی طرح جیسے انسان کی خوشیاں مختصر ہوتی ہیں۔

خوشیوں میں بھی شرارے بھرے ہوتے ہیں، ان کی چمک دور سے نظر آتی ہے۔ انسان انہیں پکڑنے کے لیے دوڑتا ہے لیکن یہ دیکھتے ہی دیکھتے، لمحوں میں، پلک جھپکتے ہی اچانک کہیں ہوا میں ہی تحلیل ہو جاتی ہیں۔ تو اس دن بھی چولہے کے بائیں والد صاحب بیٹھے تھے۔ وہ جب کبھی بھی چولہے کے نزدیک بیٹھا کرتے تھے تو اسی طرح تہمد کو سمیٹتے ہوئے ماں جی کے عین سامنے لیکن چولہے کے دائیں جانب بیٹھ جایا کرتے تھے۔

ہم بہن بھائی کھانے سے پہلے چوکیاں لے کر یا پٹ سن کی بوری پر دائرہ مکمل کر لیتے تھے۔ اس دن ہماری خوشی تو دیدنی تھی لیکن والد صاحب ہماری طرف دیکھتے تھے اور پھر کسی فکر یا سوچ میں گم ہو جاتے تھے۔ ہم بہن بھائیوں نے نئے کپڑے بھی پہن لیے تھے، سویاں بھی کھا لی تھیں اور بس اب عیدی ملنے کا انتظار تھا۔ گھر سے مجھے کوئی پانچ دس روپے ہی عیدی ملتی تھی۔ ایک ایک یا دو دو روپے کے نوٹ ہوتے تھے، جن کا مجھے پورا سال انتظار رہتا تھا۔ یہی عیدی کے پیسے جمع کرکے دس، پندرہ روپے والی کوئی گھڑی خریدنا ہوتی تھی۔

اس عید پر تو ہمارے نئے جوتے بھی چاند رات سے فقط ایک دو دن پہلے آئے تھے اور نئے جوتوں کی خوشی نے عید کا مزہ دوبالا کر رکھا تھا۔ ماں جی رمضان کے شروع یا درمیان میں ہی جوتے وغیرہ خرید کر لا دیتی تھیں لیکن اس مرتبہ عید کے آخری دنوں تک انتظار کروایا گیا۔ ابو جی دیہاڑی دار مستری تھے اور انہیں ہر جمعرات کو مزدوری ملتی تھی۔ اس عید پر شاید ابو جی کو مسلسل دوسری جمعرات بھی مکمل مزدوری نہیں ملی تھی۔ جو تھوڑے بہت پیسے ملے تھے، ان سے عین عید کے ایک دو روز پہلے ہمارے جوتے وغیرہ خریدے گئے تھے۔

بڑے بہن بھائیوں کو شاید تھوڑا بہت ادراک ہو کہ والد کا بوجھ کیا ہوتا ہے، گھر کو کیسے چلایا جاتا ہے، بچوں کی خواہشوں کے آگے ماں باپ کس قدر بے بس ہوتے ہیں، بچوں کے آنسو دیکھ کر ماں کیوں تڑپ اٹھتی ہے، بچوں کی ضرورتیں پوری کرتے کرتے والد کے چہرے پر کیوں بے ترتیب جُھریاں بننے لگتی ہیں، کھلکھلاتے چہرے اور رخساروں کی شاداب زمین کیوں بنجر ہونا شروع ہو جاتی ہے؟

اُس دن بڑے بہن بھائیوں کو شاید اس کا احساس ہوا ہو کہ والد تفکرات کی کونسی نہر میں غوطہ زن ہیں لیکن میں ان چیزوں اور ان احساسات سے ابھی کوسوں دور تھا، میری کائنات روپے روپے کے نوٹوں کے گرد گھوم رہی تھی، بات بات پر ہنسی ہونٹوں کے دروازے سے دستک دے رہی تھی، قہقہے ایسے بکھر رہے تھے، جیسے کوئی لڑکا نہر میں چھلانگ لگا کر سر ہلاتا ہے اور پانی کے قطرے چاروں اور بکھر جاتے ہیں۔

عید ابا جی کی بجائے ہمیشہ ماں جی تقسیم کیا کرتی تھیں اور میں نے اس عید پر بھی ضد کرکے کوئی ایک دو روپے زیادہ ہی لیے تھے۔ میری ضد رہتی تھی کہ بڑے بھائی کو زیادہ کیوں ملے ہیں، بڑی باجی کو زیادہ کیوں ملے ہیں، مجھے بھی زیادہ عیدی دیں۔ ماں جی اپنے انداز میں کبھی غصے ہوتیں اور کبھی پیار سے سمجھاتیں اور اس طرح معاملات طے پا جاتے۔

چولہے میں آگ اپنے انداز میں آنکھ مچولی کھیل رہی تھی، کبھی زیادہ ہو جاتی تھی اور کبھی لکڑیاں ایسے ہی سُلگنے لگتی تھیں، جیسے میں آج اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے جل بُجھ رہا ہوں۔ امی جی نے والد صاحب کو پنجابی میں کہا کہ آپ بھی کپڑے بدل لیں۔ والد صاحب اٹھے، وہی پرانی لیکن قدرے نئی اور سلیقے سے استری کی ہوئی قمیص کے ساتھ تہمد باندھ کر صافہ کندے پر رکھ لیا۔ مسجد جاتے ہوئے میں نے گلی میں والد صاحب سے پوچھا کہ آپ نے نئے کپڑے کیوں نہیں پہنے؟

میری بات سن کر بھی وہ سیدھا دیکھتے رہے، پھر دھیمے لہجے میں کہنے لگے، "پُتر عید تے بالاں دی ہوندی اے" (بیٹا عید تو بچوں کی ہوتی ہے) اس وقت میں واقعی یہ سچ سمجھا تھا کہ "عید تے بالا دی ہوندی اے" اور میں ہنسی خوشی ان کے ساتھ مسجد چلا گیا۔ مجھے اب احساس ہوتا ہے کہ اس دن والد صاحب نے یہ جملہ میری طرف دیکھ کر کیوں نہیں بولا تھا؟ شاید اس سوال پر ان کی آنکھیں نم ہوگئی ہوں گی، شاید وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں عید کے دن ان کی آنکھوں میں آئی غربت کی نمی کو دیکھوں۔

آج عشروں بعد یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اس عید پر والد چولہے کے دائیں جانب بیٹھے کن سوچوں میں گم تھے؟ بچے زیادہ عیدی کی فرمائش کریں اور والد کی جیب خالی ہو تو اس احساس کو چھپانا کس قدر مشکل ہے؟ جب سبھی لوگوں کے بچے خوش ہیں، تو آپ بچوں کو ڈانٹتے بھی تو نہیں اور کچھ بتاتے بھی نہیں۔ آج احساس ہوتا ہے کہ غربت میں عید پر والد کے لیے اپنے نہیں اولاد کے نئے کپڑے ضروری ہوتے ہیں اور آپ یہی کہتے ہیں، "عید تے بالاں دی ہوندی اے۔ "

وہ شخص، جو پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتا تھا تو لگتا تھا کہ آج کائنات میرے ساتھ ہے۔ وہ شخص، جو میرے بڑھے ہوئے بالوں میں انگلی گھما کر کہتا تھا کہ "جا پتر وال ای کٹوا کے آ جا"۔ جس کے نرم ہاتھوں اور مخروطی انگلیوں پر کبھی کبھار چھالے پڑ جاتے تھے، جس کے زخموں کے لیے ہم بہن بھائیوں کی مسکراہٹ ہی مرہم تھی، دو روز بعد اس شخص سے بچھڑے پورے گیارہ برس بیت جائیں گے۔

اللہ والد محترم کے لیے آخرت کی منازل آسان فرمائے! آپ سب دوستوں سے ان کے لیے دعائے خیر کی درخواست ہے۔

بیٹھ کر سایہ گُل میں ناصر

ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا۔

Check Also

Tilla Jogian, Aik Mazhabi Aur Seyahati Muqam

By Altaf Ahmad Aamir