Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Imtiaz Ahmad/
  4. Apki Khidmat Ke Liye Wapis Pakistan Ana Zaroori Hai

Apki Khidmat Ke Liye Wapis Pakistan Ana Zaroori Hai

آپ کی خدمت کے لیے واپس پاکستان آنا ضروری ہے

ویسے حد ہے بلکہ کوئی حد ہی نہیں ہے۔ پاکستان کا غریب مر رہا ہے بلکہ غریب تو مر چکا اب تو متوسط طبقہ بھی مر رہا ہے لیکن "ووٹ کو عزت دو" کا نعرہ لگانے والے بضد ہیں کہ ہم بیرون ملک سے گلے کی سرجری کروا کر آئے ہیں، ہمارا شاندار قسم کا استقبال کیا جائے۔

میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

جس اسحاق ڈار صاحب کو خصوصی جہاز سے منگوایا گیا تھا، جن کو خود وزیراعظم شہباز شریف اور محترمہ مریم نواز نے اپنے ہاتھ سے مٹھائی کھلائی تھی، جو کہتے تھے کہ ڈالر کو نیچے لانا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، آج انہی کی پھونکوں سے ڈالر دو سو ساٹھ کو چھُو رہا ہے اور تیل ایک ہی جھٹکے میں پینتیس روپے فی لیٹر مہنگا ہوا ہے۔ اس سے بڑھ کر ستم ظریفی کیا ہو سکتی ہیں کہ برسر اقتدار گیارہ سے زائد جماعتوں کے رہنماؤں کو اب مہنگائی کے خلاف ایک بیان دینے کی توفیق میسر نہیں ہے۔

میرے وہ دانشور اچانک شعر و شاعری پوسٹ کرنا شروع ہو چکے ہیں، جو کل تک یورو اور ڈالر کا ڈیلی ریٹ بتایا کرتے تھے۔ میں کئی سینئر صحافیوں کی دل سے عزت کیا کرتا تھا، میں سمجھتا تھا کہ یہ پڑھے لکھے لوگ ہیں اور جمہوری اقدار کے لیے کھڑے ہیں۔ لیکن میں غلط تھا، یہ بھی فقط اپنی تنخواہیں وصول کر رہے تھے۔ میری نظر میں ان تجزیہ کاروں کے بت بھی پاش پاش ہوئے ہیں۔ عمران خان حکومت میں، جن اقدامات کی آپ ڈٹ کر مخالفت کیا کرتے تھے، آج انہیں اقدامات کی حمایت بھی کر رہے ہیں جبکہ انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے کر رہے ہیں۔

آخر کیوں آپ کے تجزیات صرف یکطرفہ تصویر دکھاتے ہیں۔ عمران خان، پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ نون کے حامی کسی ایک بھی تجزیہ کار نے معافی مانگی یا مانگے گا کہ وہ جان بوجھ کر ایک مخصوص پروپیگنڈا کا حصہ رہا ہے؟ آپ مانیں یا نہ مانیں پاکستان کے غریبوں کو اپنی جنگ خود لڑنا ہوگی۔ اشرافیہ اور طاقت ور طبقے کا حصہ چاہے فوجی ہوں، سیاستدان، عدلیہ یا صحافی، یہ سب ایک دوسرے کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہیں۔ یہ آتے ہیں، حب الوطنی اور مذہب کا چورن بیچتے ہیں اور اپنے بریف کیس اٹھا کر دوبارہ بیرون ملک منتقل ہو جاتے ہیں۔

مجھے خیال آتا ہے کہ ابھی تک ہم پر انگریز حکمرانی کر رہے ہوتے تو شاید سماجی و معاشی حالات اس سے کہیں بہتر ہوتے۔ پانچ، سات برس پہلے تک سوچتا تھا کہ پاکستان واپس جانا ہے، اب حالات دیکھ کر دل سے اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ بھلے وقتوں میں پاکستان سے نکل آیا ہوں۔ جو ابھی تک ملک میں سچے دل سے اس کی خدمت کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں، میں ان کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے سلام پیش کرتا ہوں۔

باقی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ملک بس اشرافیہ کا ہی ہے۔ آپ فقط ان کے ٹینکوں کی مرمت اور ہاؤسنگ سکیموں، سیاستدانوں کی لگثرری گاڑیوں میں مفت تیل بھروانے، ججوں کے لیے تاحیات مراعات دینے اور بڑے بڑے صحافیوں کے مفت پلاٹس کے لیے ہی ٹیکس دے رہے ہیں۔ اگر طاقت ہے تو احتجاج جاری رکھیں، نہیں ہے تو کسی بھی طرح اس ملک سے نکلیں اور کسی دوسرے خطے میں جا کر بیٹھ جائیں۔ بیرون ملک اقلیتیوں کو بھی اس سے کہیں زیادہ اور اچھے حقوق میسر ہیں، جو آپ کو پاکستان میں مل رہے ہیں۔

باقی یہ ملک فقط اعلیٰ طبقے اور اشرافیہ کے لیے ہیں۔ آپ کا اور میرا تعلق مراثیوں کے اس خاندان سے ہے، جو ساری عمر پنڈ کے چودھری کا حقہ ہی تازہ کرتے رہتے ہیں۔ اگر اب بھی آپ کو بات سمجھ نہیں آتی تو بریانی کی پلیٹیں کھاتے رہیں، ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالتے رہیں، یہ ڈرامہ ابھی مزید چلے گا، ابھی بہت سے عظیم لیڈروں، سیاستدانوں، جرنیلوں اور ججوں نے بیرون ملک علاج کروا کر آپ کی خدمت کے لیے واپس آنا ہے۔

Check Also

Faizabad Ka Stop

By Naveed Khalid Tarar