Shuhada e Jammu Ki Yaad Mein
شہدائے جموں کی یاد میں

انہیں وقت نے نہیں، سیاست کے شور نے خاموش کیا۔ نومبر 1947ء کا سانحۂ جموں محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے اجتماعی ضمیر پر لگنے والا ایک گہرا زخم ہے۔ ہر سال 6 نومبر کو دنیا بھر کے کشمیری یومِ شہدائے جموں مناتے ہیں، تاکہ اُن ہزاروں معصوم مسلمانوں کو یاد کیا جا سکے جو تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی کوشش میں سفاکانہ انداز میں شہید کر دیے گئے۔
یہ کہانی اُس پُرتشدد خزاں سے شروع ہوتی ہے جب جموں و کشمیر کی ریاست تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑی تھی۔ پنجاب میں بھڑکی ہوئی فرقہ وارانہ آگ جموں تک آن پہنچی۔ معروف محقق کرسٹوفر اسنیڈن اپنی کتاب Kashmir: The Unwritten History (2012) میں لکھتے ہیں کہ ڈوگرہ فوج، آر ایس ایس اور بعض ہندو و سکھ عسکری گروہوں کی مدد سے جموں کے مسلمان دیہاتوں پر حملے کیے گئے۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ پاکستان جانا چاہتے تھے۔
تاریخی ریکارڈ کے مطابق دو سے اڑھائی لاکھ مسلمان ان حملوں میں مارے گئے۔ گارڈین (10 اگست 2002ء) اور معروف برطانوی صحافی ایان اسٹیفنز (Pakistan, 1963ء) کے مطابق تقریباً 2,37,000 مسلمان جموں سے غائب ہوگئے۔ مؤرخ الیسٹر لیمب (Kashmir: A Disputed Legacy, 1991ء) لکھتے ہیں کہ یہ ہنگامے خودبخود نہیں ہوئے بلکہ ریاست کے الحاق سے قبل آبادی کے تناسب کو بدلنے کی سوچی سمجھی سازش تھی۔
عینی شاہدین کے مطابق مسلمان قافلے جو "محفوظ راستہ" کے وعدے پر سیالکوٹ کی طرف جا رہے تھے، راستے میں ہی گھیر لیے گئے۔ ہزاروں افراد کو گولیوں سے بھون دیا گیا، تلواروں سے کاٹا گیا، یا دریائے توی میں پھینک دیا گیا۔ ایک زندہ بچ جانے والے نے وکٹوریا سکو فیلڈ کو بتایا کہ "یہ ایک خون کی ندی تھی جو جموں سے سیالکوٹ تک بہہ رہی تھی"۔
ڈان نے نومبر 1947ء میں لکھا کہ "یہ قتلِ عام سرکاری سرپرستی میں انجام دیا گیا"۔ ٹائمز آف لندن (10 نومبر 1947ء) نے اسے "برِصغیر کے سیاسی ڈرامے سے بڑی انسانی المیہ" قرار دیا۔ لیکن یہ سانحہ بین الاقوامی سطح پر وہ توجہ حاصل نہ کر سکا جس کا یہ حق دار تھا۔
اہلِ آزاد کشمیر کے لیے یومِ شہدائے جموں محض سوگ کا دن نہیں بلکہ اپنی شناخت کی یاد دہانی ہے۔ یہ اُنہیں یاد دلاتا ہے کہ کشمیر کی کہانی صرف متنازع سرحدوں کی نہیں بلکہ انسانی درد، جلاوطنی اور وعدۂ وفا کی ادھوری داستان ہے۔ ہر سال 6 نومبر کو آزاد کشمیر میں سائرن بجتے ہیں، اجتماعی دعائیں ہوتی ہیں اور شہر خاموشی اوڑھ لیتے ہیں، لیکن یہ خاموشی مزاحمت کی علامت بن جاتی ہے۔
جامعہ کشمیر کے محقق ڈاکٹر عبدالاحد اسے "تقسیمِ ہند کا گمشدہ باب" قرار دیتے ہیں۔ برطانوی کشمیری برادری اس سانحے کی یاد میں عالمی فورمز پر آواز اٹھا رہی ہے تاکہ جموں کے مسلمانوں کے قتلِ عام کو تاریخی طور پر تسلیم کیا جائے۔
جموں کا المیہ تقسیم کے اُس تضاد کو بھی بے نقاب کرتا ہے جہاں آزادی، انسانیت کی قربانی سے حاصل ہوئی۔ جموں کے مسلمان پاکستان کے خواب دیکھتے تھے، مگر انہیں زندہ رہنے کا حق بھی نہ دیا گیا۔ آج اُن کی نسلیں آزاد کشمیر کے مہاجر کیمپوں میں اُن گھروں کی چابیاں سنبھالے بیٹھی ہیں جو وہ چھوڑنے پر مجبور کیے گئے۔
اٹھہتر برس بعد بھی تاریخ کے صفحات پر جموں کے شہداء کی روحیں سرگوشیاں کرتی ہیں کہ انصاف میں تاخیر دراصل یادداشت کی نفی ہے۔ یہ دن یاد دہانی ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن صرف اُس وقت ممکن ہے جب ہم تاریخ کو انتخابی طور پر نہیں بلکہ ایمانداری سے یاد کریں۔
6 نومبر کی یہ خاموشی شکست کی نہیں بلکہ عزم کی علامت ہے۔ شہدائے جموں انتقام نہیں، یاد مانگتے ہیں اور یاد جب سچائی کے ساتھ نبھائی جائے تو وہ سب سے بلند صدا بن جاتی ہے۔

