Rana Fazal Hussain Baba e Gojri
رانا فضل حسین بابائے گوجری

میرپور (آزاد کشمیر) تاریخ کی کتابوں میں ہیرو عموماً دو خانوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں، یا تو وہ تلوار اٹھانے والے مجاہد ہوتے ہیں، یا قلم سے انقلاب لانے والے شاعر۔ لیکن رانا فضل حسین؟ انہوں نے ان خانوں کی دیواریں توڑ دیں۔ وہ ایک طرف آزادی کے لیے لڑنے والے سپاہی تھے، تو دوسری طرف اپنی قوم کے دکھ، درد اور امیدوں کو لفظوں میں ڈھالنے والے حساس شاعر۔
3 اگست 1931 کو ضلع راجوڑی کے سرسبز وادی نما علاقے "پروڑوی گجران" میں پیدا ہونے والے رانا فضل حسین ابتدا میں ایک عام سے نوجوان تھے، خواب دیکھنے والے، زندگی بنانے والے۔ شاید وہ ایک دکاندار بننا چاہتے تھے اور کچھ وقت تک وہی کرتے بھی رہے۔ مگر پھر 1947 کا سال آیا۔ تقسیمِ ہند، فسادات، بربادی، بچھڑتے خاندان، ہر طرف آگ اور آنسو۔ بہت سے لوگ محفوظ راستے چن گئے، مگر فضل حسین نے گھر کی پکار سنی۔ کشمیر نے بلایا اور وہ لبیک کہہ کر نکل کھڑے ہوئے۔
1965 کی جنگ، آپریشن جبرالٹر۔ جب ماحول میں گولیاں گونج رہی تھیں، رانا فضل حسین نے محاذ سنبھالا۔ ان کے لیے یہ صرف جنگ نہیں تھی، یہ ایک ذاتی فریضہ تھا۔ وہ باتوں کے نہیں، عمل کے آدمی تھے۔ اس جدوجہد میں ان کا خاندان قربانیاں دیتا رہا، بچھڑتا رہا، پاکستان کی سرزمین پر پناہ لیتا رہا۔ مگر رانا صاحب نے مایوسی کو قریب نہ آنے دیا۔ پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں تمغۂ امتیاز دیا، مگر اصل تمغہ وہ حوصلہ تھا جو ان کے چہرے پر ہمیشہ جھلکتا رہا۔
جلاوطنی نے بہتوں کو توڑا، مگر رانا فضل حسین کے لیے یہ ایک نیا محاذ بن گیا۔ 1967 سے 1990 تک وہ ریڈیو آزاد کشمیر تراڑکھیل سے "آوازِ گوجری" بن کر گونجتے رہے۔ گولیوں کے بجائے اب وہ لفظوں سے لڑتے تھے۔ ان کے ڈرامے، کہانیاں اور شاعری گوجری زبان کی روح بن گئیں۔
ان کی تخلیقات "روشنی"، "رحمتاں کی رت"، "بن پھل بن پھل پانی"، "لہو پھوہار"، "بیتھ گگن پاتال کی"، ہر ایک نے گوجری زبان کو پہچان دی۔ ان کے قلم نے گوجروں کی کہانیوں کو تاریخ کے حاشیے سے اٹھا کر مرکزی صفحے پر لکھ دیا۔
حکومتِ پاکستان نے بھی ان کے کام کو نظرانداز نہیں کیا۔ صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور گورنر ہاؤس لاہور میں پذیرائی، یہ ان کی جدوجہد کا اعتراف تھا۔ مگر رانا فضل حسین کے لیے یہ اعزاز صرف ان کی ذات کا نہیں تھا، بلکہ ان کی پوری قوم، ان کے قبیلے، ان کی زبان اور ثقافت کا اعزاز تھا۔
7 فروری 2024 کو رانا فضل حسین اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ مگر سچ یہ ہے کہ ایسے لوگ کبھی جاتے نہیں۔ وہ ہر اُس گوجری لفظ میں زندہ ہیں جو فخر سے بولا جاتا ہے، ہر اُس دل میں جو کشمیر کی جدوجہد کو محسوس کرتا ہے۔
وہ صرف "بابائے گوجری" نہیں تھے، وہ اس بات کا ثبوت تھے کہ اگر ایک انسان میں ایمان، جنون اور عزم ہو تو وہ جنگ کے میدان سے لے کر ریڈیو کی لہروں تک تاریخ بدل سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اُنہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ انہوں نے واقعی اپنی قوم کے لیے سانس لی، آخری لمحے تک۔

