November Ki Jhalkiyan, Iqbal Kivision Aur Rehmat Ali Ka Khaka e Pakistan
نومبر کی جھلکیاں، اقبالؒ کا وژن اور رحمت علیؒ کا خاکۂ پاکستان

نومبر کا مہینہ ہر سال خزاں کے نرم پتوں کی سرسراہٹ کے ساتھ آتا ہے اور ہمیں دو عظیم شخصیات کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی تقدیر کا رخ موڑ دیا، علامہ محمد اقبالؒ، جن کی ولادت 9 نومبر 1877 کو ہوئی اور چوہدری رحمت علیؒ، جو 16 نومبر 1897 کو پیدا ہوئے۔ دونوں نے تحریکِ پاکستان کی فکری و عملی بنیادوں میں اپنا گہرا کردار ادا کیا۔ تاریخ نے اگرچہ دونوں کو مختلف زاویوں سے یاد کیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اقبالؒ مفکرِ پاکستان ہیں جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کی روح کو بیدار کیا اور رحمت علیؒ نقّاشِ پاکستان ہیں جنہوں نے اُس روح کو خاکے اور نقشے کی صورت عطا کی۔
یہ سمجھنا تاریخی غلطی ہوگی کہ رحمت علیؒ کا تصورِ پاکستان اقبالؒ کے وژن سے ماخوذ تھا۔ درحقیقت، رحمت علیؒ کا خیال اقبالؒ سے بالکل آزاد اور بہت پہلے تشکیل پا چکا تھا۔ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ رحمت علیؒ نے 1915 ہی میں، لاہور میں تعلیم کے دوران، مسلمانوں کی الگ قومی شناخت اور علیحدہ وطن کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا تھا، اُس وقت جب وہ ابھی انگلستان نہیں گئے تھے۔ وہ برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی غلامی سے گہرے طور پر مضطرب تھے اور سمجھتے تھے کہ ان کی بقا صرف علیحدگی میں ہے، نہ کہ ہندوستانی وفاق کے اندر۔
1933 میں اُن کا یہ وژن عملی شکل میں ظاہر ہوا جب انہوں نے اپنی تاریخی یادداشت "Now or Never: Are We to Live or Perish Forever?" شائع کی۔ یہ پمفلٹ کیمبرج میں مسلم طلبہ اور سیاسی رہنماؤں میں تقسیم کیا گیا اور اس میں پہلی بار ایک خودمختار مسلم مملکت، پاکستان، کے قیام کا واضح مطالبہ کیا گیا۔ لفظ پاکستان اُن کے نزدیک صرف ایک نام نہیں بلکہ ایک نظریہ تھا، جو پنجاب، افغانیہ (سرحد)، کشمیر، سندھ اور بلوچستان کے مجموعے کی علامت تھا۔ لیکن رحمت علیؒ کا کارنامہ صرف نام تجویز کرنے تک محدود نہیں۔ انہوں نے نقشے بنائے، دیگر مسلم خطوں کے نام تجویز کیے جیسے بنگستان، عثمانستان اور حیدرستان اور ایک وسیع مسلم وفاق کا خاکہ پیش کیا۔ ان کا منصوبہ فکری بھی تھا اور جغرافیائی بھی۔
دوسری جانب، علامہ اقبالؒ کا وژن روحانی اور فکری تھا۔ انہوں نے الہٰ آباد کے خطبے (1930) میں شمال مغربی ہندوستان میں خودمختار مسلم صوبوں کے قیام کی تجویز دی۔ اُن کا مقصد اُس وقت کی سیاسی حقیقتوں کے اندر رہتے ہوئے مسلمانوں کے لیے باوقار مقام پیدا کرنا تھا، نہ کہ فوری طور پر علیحدہ مملکت کا مطالبہ۔ اقبالؒ کی 4 مارچ 1934 کی ایک خط میں (ای۔ جے۔ ڈی۔ تھامسن، کیمبرج محقق کے نام، مسائلِ سیاست، صفحہ 73) وہ خود لکھتے ہیں کہ انہوں نے کبھی علیحدہ مسلم ریاست کی تجویز نہیں دی۔ تاہم، اقبالؒ کی شاعری اور فلسفہ نے مسلمانوں کے اندر خودی، غیرت اور شعور کی وہ چنگاری روشن کی جس کے بغیر کسی سیاسی تحریک کی بنیاد ممکن نہ تھی۔
جیسا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے اپنے انٹرویو (سما ٹی وی) میں کہا کہ اُن کے والد کا تصور سیاسی طور پر صوبائی خودمختاری تک محدود تھا، لیکن فکری طور پر وہ ایک روحانی انقلاب کے خواہاں تھے۔ اقبالؒ نے مسلمانوں کو روح دی اور رحمت علیؒ نے اس روح کو شکل دی۔
رحمت علیؒ کا نظریہ انقلابی تھا کیونکہ وہ کسی مصلحت یا تاخیر کے قائل نہ تھے۔ اُن کا سوال، "Are we to live or perish forever?"، صرف نعرہ نہیں بلکہ ایک پکار تھی جو ملت کے دل کو جھنجھوڑ گئی۔ اُن کی بات کو ابتدا میں مسلم لیگ اور حتیٰ کہ محمد علی جناحؒ جیسے رہنماؤں نے بھی شدت پسندانہ قرار دے کر مسترد کیا، مگر وقت نے خود اُن کے نظریے کی سچائی ثابت کر دی۔ قراردادِ لاہور (1940) کے بعد وہی پاکستان جو کبھی ایک طالبِ علم کا خواب سمجھا جاتا تھا، ایک قومی نصب العین بن گیا۔
افسوس کہ آزادی کے بعد رحمت علیؒ کو وہ مقام نہ ملا جس کے وہ مستحق تھے۔ وہ پاکستان آئے مگر جلد ہی واپس انگلستان چلے گئے، دل شکستہ اور مایوس کہ اُن کے خواب کا پاکستان ادھورا رہ گیا۔
آج تاریخ بڑی وضاحت سے بتاتی ہے کہ اقبالؒ نے ملت کو بیدار کیا اور رحمت علیؒ نے اُس کے لیے نقشہ بنایا۔ اقبالؒ نے مسلمانوں کو خودی اور ایمان کا شعور دیا، رحمت علیؒ نے اُسے سیاسی وجود بخشا۔ ایک نے روح دی، دوسرے نے جسم تراشا۔
جب نومبر کی ہوائیں گزرتی ہیں تو ہمیں محض سالگرہیں نہیں منانی چاہئیں بلکہ اپنے ماضی کی فکری دیانت کو بھی بحال کرنا چاہیے۔ یہ قوم اُس شاعرِ مشرق کی مقروض ہے جس نے خواب دکھایا اور اُس طالبِ علم کی بھی جس نے اُس خواب کو خاکے میں ڈھالا۔
علامہ اقبالؒ، روحِ پاکستان اور چوہدری رحمت علیؒ، نقشہ سازِ پاکستان دونوں نے مل کر فکر و عمل، روح و جسم اور خواب و حقیقت کے اس ربط کو مکمل کیا جس سے یہ وطن معرضِ وجود میں آیا۔

