New York Ki Nai Aawaz
نیو یارک کی نئی آواز

نیویارک کی اُس تاریخی شب میں جب شہر کی سیاست نے نیا موڑ لیا، زوہران ممدانی نے ہزاروں لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر کہا: "یہ شہر تمہارا ہے"۔ الفاظ سادہ تھے مگر معنویت میں گہرے، کیونکہ پہلی بار امریکہ کے سب سے بڑے شہر میں ایک مسلمان، ایک جنوبی ایشیائی نژاد شخص میئر منتخب ہوا۔ لیکن یہ کامیابی صرف نمائندگی کا نشان نہیں، بلکہ عوامی طاقت کا اظہار تھی۔
ممدانی کی فتح تقریر کسی روایتی سیاسی شو سے زیادہ عوامی جدوجہد کا بیان لگ رہی تھی۔ اُنہوں نے اعلان کیا: "ہم کرایے منجمد کریں گے، بچوں کی نگہداشت مفت ہوگی اور پبلک ٹرانسپورٹ سب کے لیے آزاد ہوگی"۔ یہ وعدے صرف الفاظ نہیں تھے بلکہ اس احساس کا اظہار تھے کہ سیاست دوبارہ عوام کی ہو سکتی ہے۔
تقریر میں ایک جرات مندانہ لمحہ وہ تھا جب ممدانی نے براہِ راست ڈونلڈ ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "آواز اونچی کرو"۔ یہ جملہ صرف چیلنج نہیں تھا بلکہ ایک نئے سیاسی لہجے کا اعلان تھا، ایسا لہجہ جو خوف کے مقابلے میں ڈٹ جانے کا حوصلہ رکھتا ہے۔
زوہران ممدانی کی زندگی کی کہانی خود ایک سیاسی علامت ہے، افریقہ کے یوگنڈا سے تعلق رکھنے والے بھارتی نژاد والدین کا بیٹا، کوئنز میں پرورش پانے والا ایک نوجوان، جو کبھی کرایہ داروں کے حقوق کے لیے کام کرتا تھا۔ اُس کی کامیابی مغرب کی بدلتی ہوئی جمہوریت کا استعارہ ہے جہاں حاشیے کے لوگ اب مرکز میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔
ممدانی نے اپنی تقریر میں مذہب اور شناخت سے گریز نہیں کیا بلکہ انہیں اپنی طاقت بنایا۔ اُنہوں نے کہا: "ہر اُس تارکِ وطن کے لیے جسے بتایا گیا کہ تم یہاں کے نہیں، ہر اُس مسلمان بچے کے لیے جس سے کہا گیا کہ تمہارا نام بہت اجنبی ہے، آج نیویارک نے کہا ہے: تم یہاں کے ہو"۔
یہی جملہ، تم یہاں کے ہو، دراصل اُس مہم کا مرکزی نکتہ بن گیا۔ ایک ایسے دور میں جب شناخت اور وابستگی کی سیاست بکھر رہی ہے، ممدانی کا یہ پیغام تسلی اور اعتماد کا مظہر ہے۔ اُن کی فتح نے امریکہ کے سیاسی منظرنامے میں ایک آئینہ رکھ دیا ہے، جو اُس کے تنوع اور تقسیم، دونوں کو واضح کر رہا ہے۔
یقیناً یہ کامیابی محض علامتی نہیں۔ اصل امتحان اب شروع ہوتا ہے، جب معاشی دباؤ، سیاسی مخالفت اور بیوروکریسی کی سستی اُس کے سامنے دیواریں کھڑی کریں گی۔ مگر ممدانی کا یقین اُس عوامی طاقت پر ہے جو نظام سے بڑی ہوتی ہے۔ اُنہوں نے کہا: "یہ شہر ارب پتیوں کی جاگیر نہیں ہو سکتا جب کہ اس کے مزدور کرایہ دینے کے لیے جدوجہد کر رہے ہوں"۔
ایک ہی رات میں نیویارک نے اپنی قیادت کے معنی بدل دیے۔ زوہران ممدانی کی جیت کسی فرد کی نہیں بلکہ ایک خیال کی جیت ہے، کہ نمائندگی کے ساتھ تبدیلی بھی ضروری ہے اور اخلاقی جرات اب بھی ووٹ جیت سکتی ہے۔
چاہے وہ اپنے تمام وعدے پورے کریں یا نہ کریں، اُن کی تقریر ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، اس یاد دہانی کے طور پر کہ جمہوریت کا سب سے انقلابی عمل یہ ہے کہ ہر شہری کو یہ محسوس ہو کہ نظام، شہر اور کہانی، سب اُس کے ہیں۔

