Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Imran Ismail
  4. Naye Aalmi Ittehadon Ka Ubhar

Naye Aalmi Ittehadon Ka Ubhar

نئے عالمی اتحادوں کا ابھار

دنیا کی سیاست کے شطرنج پر ہر بڑی طاقت اپنے مہروں کو بڑی احتیاط اور حساب سے آگے بڑھاتی ہے۔ ہر قدم کے پیچھے کوئی نہ کوئی خفیہ مقصد چھپا ہوتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں حالیہ سیاسی سرگرمیاں، خصوصاً پاکستان، بھارت اور امریکا کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی، ایک بار پھر یہ ظاہر کرتی ہیں کہ عالمی طاقتیں علاقائی تنازعات کو اپنے وسیع تر مفادات کے لیے کس طرح استعمال کرتی ہیں۔

امریکا نے ایک بار پھر عالمی سطح پر ایک پیچیدہ "ڈبل گیم" کھیلا ہے، ایسا کھیل جس نے پرانے اتحادوں کو توڑ کر نئے اتحادوں کی بنیاد رکھ دی ہے۔

یہ ایک واضح پیٹرن بن چکا ہے کہ جب بھی عالمی نظام کسی حد تک مستحکم ہونے لگتا ہے، واشنگٹن ایک نئی قسم کی کشیدگی پیدا کر دیتا ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکا نے سفارتی دباؤ، میڈیا بیانات اور اشاروں کے ذریعے جنوبی ایشیا کو دوبارہ تنازع کی طرف دھکیل دیا ہے۔ دونوں ایٹمی ہمسایہ ممالک پاکستان اور بھارت ایک بار پھر پرانے تناؤ کی فضا میں داخل ہوتے نظر آتے ہیں۔

بظاہر امریکا خود کو امن کا علمبردار اور "غیر جانب دار ثالث" ظاہر کرتا ہے جو دونوں ممالک کو تحمل اور ضبط کی تلقین کرتا ہے۔ لیکن پس منظر میں وہی واشنگٹن اپنے مفادات کے لیے شطرنج کے مہروں کی طرح خطے کے حالات کو ترتیب دیتا ہے۔ بظاہر غیر جانب دار، مگر دراصل سب سے بڑا فائدہ اٹھانے والا۔

اس کھیل کا دوسرا مرحلہ معاشی دباؤ کے ذریعے بھارت پر لایا گیا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے بھارتی مصنوعات پر تجارتی پابندیاں اور ٹیکس عائد کیے۔ عام تاثر یہ بنا کہ امریکا نے نئی دہلی سے ناراضی ظاہر کی ہے۔ مگر حقیقت میں یہ "ناراضی" ایک چال تھی، قریب لانے کے لیے، دور کرنے کے لیے نہیں۔

یہ پردہ تب ہٹا جب انہی پابندیوں کے کچھ عرصے بعد امریکا نے بھارت کے ساتھ 60 ملین ڈالر کے اسلحہ معاہدے کا اعلان کیا۔ جدید دفاعی ٹیکنالوجی، طیاروں کے پرزے اور نگرانی کے نظام بھارت کو فراہم کرنے کا معاہدہ ہوا۔ اس کے ساتھ ہی ایک اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ بھی طے پایا جس کے تحت بھارت پر کسی بھی حملے کو امریکا پر حملہ تصور کیا جائے گا۔

یہ محض ایک سفارتی جملہ نہیں بلکہ خطے کے طاقت کے توازن میں بڑی تبدیلی تھی۔ امریکا نے نہ صرف اربوں ڈالر کے معاشی مفادات حاصل کیے بلکہ ایشیا میں چین کے مقابلے کے لیے ایک مستقل عسکری اتحادی بھی حاصل کر لیا۔

اسی دوران مسلم دنیا میں بھی نئی صف بندیاں ہو رہی تھیں۔ پاکستان اور سعودی عرب، جو پہلے ہی دیرینہ اتحادی ہیں، نے عسکری تربیت، انٹیلی جنس کے تبادلے اور دفاعی ٹیکنالوجی کے شعبوں میں نئے تعاون کا اعلان کیا۔ بظاہر یہ ایک معمولی پیش رفت تھی، مگر عالمی منظرنامے میں یہ ایک علامتی اشارہ تھا کہ نئے عالمی اتحاد وجود میں آ رہے ہیں۔

یہ تمام پیش رفت ایک نئے عالمی تقسیم کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ 19ویں اور 20ویں صدی میں بھی یورپ نے "طاقت کے توازن" کے نام پر جو اتحاد بنائے، وہی بالآخر پہلی عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔ طاقت کا توازن دراصل خوف کا توازن تھا اور جب یہ توازن بگڑا تو دنیا تباہی کی طرف بڑھ گئی۔

آج کی دنیا میں بھی وہی منظر نامہ دہرا رہا ہے۔ دفاعی معاہدے امن کے ضامن نہیں بلکہ دباؤ اور کنٹرول کے اوزار ہیں۔ اسلحہ کی عالمی تجارت "سلامتی" کے بہانے فروغ پا رہی ہے۔ ہر سپر پاور خود کو محافظ ظاہر کرتی ہے مگر ہر سودا، ہر معاہدہ دراصل کشیدگی میں اضافے کا ذریعہ بنتا ہے۔

امریکا، چین، روس، تینوں اپنی معیشت، ٹیکنالوجی اور دفاعی تعلقات کے ذریعے اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں۔ جبکہ چھوٹے ممالک ان کے درمیان مقابلے کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔

واشنگٹن کی "ڈبل گیم" کے کئی فائدے ہیں: یہ علاقائی دشمنیوں کو برقرار رکھتی ہے، ڈالر کی بالادستی کو مستحکم کرتی ہے اور امریکا کو "لازمی طاقت" کے طور پر پیش کرتی ہے۔

بھارت وقتی طور پر عزت اور طاقت حاصل کرتا ہے، مگر خود کو ایک ایسی جنگی لائن پر کھڑا پاتا ہے جہاں چین کے خلاف امریکا کے مفادات کے لیے قربانی دینا پڑے گی۔ پاکستان کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ اسے اپنے تعلقات کا دائرہ وسیع کرنا اور سفارتی توازن پیدا کرنا ہوگا تاکہ تنہائی کا شکار نہ ہو۔

مگر ان بدلتے اتحادوں کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں اسلحے کی دوڑ تیز ہو چکی ہے، کمزور معیشتیں اربوں ڈالر دفاعی اخراجات میں جھونک رہی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی تقسیم گہری ہو رہی ہے۔ دنیا میں "کثیرالقطبی استحکام" کا خواب دھندلا رہا ہے۔

تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جب بڑی طاقتیں اپنے مفادات کو اجتماعی امن کے پردے میں چھپاتی ہیں تو انجام کبھی پُرامن نہیں ہوتا۔ ہر سلطنت جس نے "ڈبل گیم" کھیلی، بالآخر خود اپنے جال میں پھنسی۔ آج کی دنیا بھی اسی دہانے پر کھڑی ہے، عارضی اتحاد، مستقل عدم استحکام۔

ایسا لگتا ہے کہ ایک نئی عالمی کشمکش کا منظر تیار ہو چکا ہے۔ یہ جنگ شاید توپوں سے نہ لڑی جائے، بلکہ معیشت، ٹیکنالوجی اور پراکسی تنازعات کے ذریعے۔ دفاعی معاہدے اب اس نئے سرد جنگی شطرنج کی پہلی چال بن چکے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ ایک نئے تقسیم کی خاموش تیاری نہیں؟

تاریخ بتاتی ہے کہ "ڈبل گیم" کبھی دیرپا نہیں رہتی۔ مہریں سجی ہیں، چالیں چل پڑی ہیں اور دنیا ایک بار پھر طاقت کے اسی کھیل کی طرف بڑھ رہی ہے، جہاں کھلاڑی بدل جاتے ہیں، مگر کھیل کے اصول وہی رہتے ہیں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan