Millat e Islamia Aur Hindustaniat Ka Fitna
ملتِ اسلام اور "ہندوستانیت" کا فتنہ

سن 1940 کی بہار میں، جب آل انڈیا مسلم لیگ لاہور میں اپنے تاریخی اجلاس کے ذریعے قراردادِ پاکستان کی بنیاد رکھ رہی تھی، عین اسی وقت چودھری رحمت علی مسلمانوں کے لیے ایک وسیع تر فکری و سیاسی تصور ترتیب دے رہے تھے۔ انہی دنوں ان کی تحریک، پاکستان نیشنل موومنٹ، نے انگلستان سے باہر کراچی میں اپنا پہلا اہم اجلاس منعقد کیا۔ اس موقع پر رحمت علی نے ایک خطاب کیا جو بعد ازاں "ملتِ اسلام اور ہندوستانیت کا فتنہ" کے عنوان سے شائع ہوا۔
اس رسالے میں انہوں نے اپنی تحریک کی فکری اساس پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں۔
"مسلمان، ہندو نہیں، پاکستانی، ہندوستانی نہیں اور ایشیائی، بھارتی نہیں"۔
رحمت علی کے نزدیک برصغیر، جسے انگریزوں نے "انڈیا" کا نام دیا تھا، دراصل ایک عارضی سیاسی ساخت تھی جو بالآخر مختلف آزاد ریاستوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ ان کے نزدیک پاکستان، بنگال اور عثمانستان (حیدرآباد دکن) محض جغرافیائی خطے نہیں بلکہ ملتِ اسلامیہ کی روحانی و تہذیبی اساس کے استعارے تھے، جن کی حفاظت امتِ مسلمہ کی بقا کے لیے ناگزیر تھی۔
رحمت علی کا کہنا تھا کہ 1933 کی پاکستان اسکیم دراصل ایک عبوری مرحلہ تھی، ایک عظیم تر مقصد کی جانب پہلا قدم، یعنی پوری مسلم دنیا کو "ہندوستانیت" کے زہر سے محفوظ رکھنا۔ ان کے نزدیک اگلا مرحلہ بنگال اور آسام کو آزاد کرکے "بنگِ اسلام" کے قیام کا تھا، جبکہ عثمانستان کو ایک خودمختار مسلم ریاست کے طور پر منظم کرنے کی ضرورت تھی۔ ان کے نزدیک یہ تینوں ریاستیں ایک مشترکہ مرکزی اتحاد کے تحت مربوط ہونی چاہئیں۔
رحمت علی کے مطابق، اس مرحلے پر آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاسی افادیت ختم ہو چکی تھی، کیونکہ مسلمانوں نے پہلے ہی اپنی قومی شناخت کو ہندوستان سے الگ متعین کر لیا تھا۔ اس لیے وہ ایک نئے پلیٹ فارم، "اتحادِ اقوامِ پاکستان، بنگال و عثمانستان"، کے قیام کے حامی تھے۔
یہ خطاب اگرچہ ولولہ انگیز تھا مگر اس میں رحمت علی کی ابتدائی تحریروں جیسی فکری ترتیب اور منطقی وضاحت نہیں تھی۔ غالباً یہ کسی زبانی تقریر کی بنیاد پر تیار ہوا تھا، جس میں استدلال سے زیادہ خطابت نمایاں تھی۔ تاہم، اس کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے کیونکہ اس میں رحمت علی نے نظریۂ پاکستان کو وسعت دے کر بنگال اور حیدرآباد کو بھی مسلم وطنوں کے ہم پلہ قرار دیا۔
بعد ازاں، رحمت علی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے 1937 میں بنگال اور آسام کے لیے "بنگ" کی اصطلاح استعمال کی تھی، اگرچہ اس دور کے کسی نقشے یا دستاویز سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔ ان کی 1938 کی تحریروں میں بھی اس تصور کا سراغ نہیں ملتا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ خیال مکمل طور پر 1940 کے بعد پروان چڑھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ان کے خیالات مزید وسعت اختیار کرتے گئے۔ اکتوبر 1942 میں انہوں نے ایک اور رسالہ "ملت اور مشن، دینیا کے ساتویں براعظم کے لیے تقدیر کے سات احکام" کے عنوان سے شائع کیا۔ اس میں انہوں نے مسلم خودشناسی کے لیے سات اصول یا "فرامینِ تقدیر" پیش کیے:
1۔ اقلیت کی سیاست ترک کرو۔
2۔ جداگانہ مسلم قومیت اپناؤ۔
3۔ آبادی کی بنیاد پر علاقہ حاصل کرو۔
4۔ انفرادی مسلم اقوام کو مضبوط بناؤ۔
5۔ انہیں یکجا کرکے "پاک دولتِ اقوام" تشکیل دو۔
6۔ "ہند" کو "دینیا" میں بدل دو، مسلم ریاستوں کا براعظم۔
7۔ "دینیا" کو وسعت دے کر "پاکیشیا" کی صورت میں ایک عالمی مسلم اتحاد قائم کرو۔
انہوں نے یہاں تک ایک مدت مقرر کی: 1957 تک پاکستان، بنگِ اسلام اور عثمانستان کا قیام اور بیسویں صدی کے اختتام تک سات مسلم اقوام کی تشکیل۔ ان کے خیال میں برصغیر رفتہ رفتہ ایک وسیع اسلامی اتحاد، پہلے دینیا، پھر پاکیشیا، کی شکل اختیار کر لے گا۔
اس مرحلے پر رحمت علی نے اپنے نظریۂ پاکستان کو ایک جغرافیائی مطالبے سے نکال کر ایک تہذیبی اور روحانی تحریک میں بدل دیا۔ ان کا وژن ایک براعظم گیر اسلامی نشاۃِ ثانیہ کا تصور پیش کرتا تھا۔
جیسے ایف۔ کے۔ خان درّانی نے مسلمانوں کی برتری کو عسکری طاقت کے ذریعے ممکن سمجھا تھا، رحمت علی نے اسی مقصد کو فکری و دستوری جدوجہد سے حاصل کرنے کا عزم کیا۔
اگرچہ ان کے خیالات سیاسی حقیقتوں سے اکثر متصادم تھے، مگر ان کی فکری بلندی، جراتِ اظہار اور تخیلاتی وسعت نے مسلم قومیت کے مباحث پر گہرا اثر چھوڑا۔
ان کے خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے، مگر ان کے تصورات نے برصغیر کے مسلمانوں کے ذہنوں میں اسلامی شناخت اور قومی شعور کا ایک مستقل نقش ضرور چھوڑ دیا، ایک ایسا نقش جو آج بھی فکری مباحث میں زندہ ہے۔

