Jammu Ki Alag Pehchan
جموں کی الگ پہچان

جب بھی کوئی "جموں و کشمیر" کا ذکر کرتا ہے تو ذہن فوراً برف پوش وادیوں، جھیلوں اور کشمیر کی سیاست کی طرف چلا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس بڑے عنوان کے نیچے جموں کی اپنی کہانی اکثر دب جاتی ہے۔ دراصل، جموں اور کشمیر کا ایک ساتھ آنا کوئی قدرتی یا تاریخی بندھن نہیں تھا۔ 1846ء میں جموں کے مہاراجہ گلاب سنگھ نے معاہدۂ امرتسر کے تحت برطانوی حکومت سے کشمیر وادی کو خریدا۔ جیسا کہ معروف مؤرخ وِکٹوریا شوفیلڈ نے لکھا ہے:
"کشمیر کا حکمران کوئی کشمیری نہیں بلکہ جموں کا ڈوگرہ تھا، جس نے دو مختلف تہذیبوں کو ایک مصنوعی اکائی میں جوڑ دیا۔ "¹
برطانوی دور کے افسران بھی اس تضاد کو محسوس کرتے تھے۔ والٹر لارنس نے 1895ء میں لکھا کہ جموں اپنی ڈوگرہ ہندو روایات کے ساتھ جڑا ہوا ہے، جبکہ کشمیر وادی فارسی اثرات اور مسلم ثقافت کا مرکز ہے۔
"جموں بنیادی طور پر ڈوگرہ زمین ہے جہاں راجپوت روایات غالب ہیں، جب کہ کشمیر وادی مسلم کشمیریوں کی سرزمین ہے جس پر فارسی اثرات نمایاں ہیں۔ "²
جموں کے لوگ ڈوگری اور پنجابی لہجوں میں بات کرتے ہیں، لوہڑی جیسے تہوار مناتے ہیں جو راجپوت ثقافت سے جڑے ہیں۔ دوسری طرف کشمیر کی شناخت صوفیانہ روحانیت اور شیو ازم سے تشکیل پاتی ہے۔ سیاسی ماہر سمنترہ بوس کے مطابق:
"جموں کا ثقافتی رشتہ پنجاب سے زیادہ ہے، وادی سے نہیں۔ جموں و کشمیر کو ایک ثقافتی اکائی کہنا گمراہ کن ہے، یہ دو مختلف دنیائیں ہیں جنہیں محض سیاست نے باندھا ہے۔ "³
1947ء کے بعد جب شیخ عبداللہ کی قیادت میں اقتدار سری نگر کی طرف جھک گیا تو جموں کو احساس ہوا کہ وہ اپنے ہی صوبے میں دوسرے درجے کا شریک ہے۔ بلراج پوری کے مطابق اسمبلی میں نمائندگی کا عدم توازن جموں کے احساسِ محرومی کو مزید گہرا کرتا گیا۔
"نمائندگی کی عدم مساوات نے کشمیر کی بالادستی کو ادارہ جاتی شکل دی اور جموں کو اپنے ہی ریاست میں ماتحت محسوس ہونے پر مجبور کیا۔ "⁴
آرٹیکل 370 جس کا مقصد کشمیری شناخت کا تحفظ تھا، اس نے جموں کو مزید الگ تھلگ کر دیا۔ ریتا ٹریمبلی کے مطابق جہاں کشمیر خودمختاری کا مطالبہ کرتا رہا، وہاں جموں شروع سے بھارت کے مکمل انضمام کا خواہاں تھا۔ یہی سوچ پراجا پریشد تحریک کے نعرے "ایک آئین، ایک نشان، ایک پردھان" میں جھلکتی ہے، جسے کرسٹوفر سنیڈن نے جموں کی سیاسی جدوجہد کی علامت قرار دیا۔
"جموں کے لوگ بھارت کے ساتھ مکمل الحاق چاہتے تھے، جبکہ وادی کی قیادت خودمختاری کی طلبگار تھی۔ "⁵
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ ڈوگرہ مہاراجے خود جموں سے تعلق رکھتے تھے، مگر مورخین کی توجہ ہمیشہ کشمیر پر مرکوز رہی۔ الیسٹر لیمب اور بلراج پوری دونوں نے تنبیہ کی کہ جموں کو نظرانداز کرنا دراصل ریاست کے نصف حقائق کو نظرانداز کرنا ہے۔
"ریاست کی پہلی واضح بغاوت اور الحاق کی آواز جموں سے اٹھی، جسے دہائیوں تک نظرانداز کیا گیا۔ "⁶
2019ء میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد جموں میں خوشی تو ہوئی، مگر ساتھ ہی یہ خدشہ بھی برقرار رہا کہ کیا اب بھی فیصلہ سازی صرف دہلی اور سری نگر کے بیچ ہی رہے گی؟ نئی نسل بھی وہی شکوہ دہراتی ہے کہ "ہر بات کشمیر پر ختم ہو جاتی ہے، جموں کا ذکر شاید بعد میں آتا ہے۔ "
"ڈوگرہ مہاراجے کشمیری نہیں تھے، ان کی سیاسی و ثقافتی بنیاد جموں میں تھی۔ "⁷
بلراج پوری نے اپنی آخری تحریروں میں لکھا کہ جموں کو صرف کشمیر کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا ایک علمی ناانصافی ہے۔ ریاست کوئی یکجہتی کا مجسمہ نہیں، بلکہ مختلف اکائیوں کا مجموعہ ہے۔
"کشمیر کا ذکر جموں کے بغیر کرنا، حقیقت کے نصف حصے کو مٹا دینے کے مترادف ہے۔ "⁸
مختصراً، جموں صرف "کشمیر کا دوسرا حصہ" نہیں بلکہ اپنی الگ تاریخ، ڈوگرہ وراثت، زبان اور سیاسی سوچ رکھتا ہے۔ جیسا کہ مذکورہ مؤرخین نے ثابت کیا، جموں کو اس کی اصل شناخت دینا نہ صرف انصاف کا تقاضا ہے بلکہ تاریخ کی تصحیح بھی ہے۔ شاید وقت آ گیا ہے کہ فیصلے کرنے والے اور سیکھنے والے دونوں یہ سمجھیں کہ کہانی صرف وادی کی نہیں، بلکہ جموں کی بھی ہے، جو اپنی پہچان کا منتظر ہے۔
حوالہ جات:
1۔ Victoria Schofield، Kashmir in Conflict: India Pakistan and the Unending War (2000)، p. 12
2۔ Walter Lawrence، The Valley of Kashmir (1895)، p. 3
3۔ Sumantra Bose، Kashmir: Roots of Conflict، Paths to Peace (2003)، p. 56
4۔ Balraj Puri، Jammu: A Clue to Kashmir Tangle (1981)، p. 27
5۔ Reeta Chowdhari Tremblay، Democracy and Governance in Jammu and Kashmir (1999)، p. 44
6۔ Christopher Snedden، Kashmir: The Unwritten History (2012)، p. 62
7۔ Alastair Lamb، Kashmir: A Disputed Legacy 1846–1990 (1991)، p. 19
8۔ Balraj Puri، Kashmir Towards Insurgency (1993)، p. 11

