Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Imran Ismail
  4. Iqbal Ka Falsafa e Be Khudi

Iqbal Ka Falsafa e Be Khudi

اقبال کا فلسفۂ خودی

جدید اسلامی فکر کو جِلا بخشنے والے فکری مکالمات میں ایک نہایت اہم اور گہرے معنی رکھنے والا تبادلہ وہ تھا جو علامہ محمد اقبال اور ممتاز مستشرق پروفیسر رینالڈ اے۔ نکلسن کے درمیان ہوا۔ نکلسن وہی انگریز عالم تھے جنہوں نے 1920ء میں اقبال کی شہرۂ آفاق تصنیف اسرارِ خودی کا انگریزی ترجمہ کیا، ایک ایسا ترجمہ جس نے اقبال کے فلسفے کو لاہور سے لندن تک، مشرق کی روحانی زمین سے مغرب کے فکری ایوانوں تک پہنچا دیا۔ مگر یہ ترجمہ محض ایک علمی خدمت نہ تھی، بلکہ اس نے ایک فکری بحث کے دروازے کھول دیے، وہ بحث جس نے اقبال کے پیغامِ خودی کی اصل روح کو بے نقاب کیا۔

نکلسن نے جب اقبال کے تصورِ خودی میں مغربی انفرادیت (Individualism) کی جھلک محسوس کی تو اقبال نے نہایت وضاحت سے، 24 جنوری 1921ء کو، اپنے ایک مکتوب میں اس غلط فہمی کو دور کیا۔ یہ خط زندہ اقبال کے صفحہ 114 پر محفوظ ہے اور اقبال کے اخلاقی و روحانی نظریے کی سب سے روشن توضیح ہے۔

اقبال لکھتے ہیں: "انسان کا اخلاقی اور مذہبی نصب العین نفیِ ذات نہیں بلکہ اثباتِ ذات ہے۔ وہ اس نصب العین کو زیادہ سے زیادہ منفرد اور یکتا بن کر حاصل کر سکتا ہے۔ انسان خدا کے قریب اپنی شخصیت کو مٹانے سے نہیں بلکہ اسے مضبوط بنانے سے پہنچتا ہے، وہ خدا میں فنا نہیں ہوتا بلکہ خدا کو اپنی ذات میں جذب کر لیتا ہے"۔

یہ الفاظ اقبال کی روحانی بصیرت کی اساس ہیں، کہ خودی نہ غرور ہے نہ انانیت، بلکہ انسان میں ودیعت وہ خدائی قوت ہے جو عمل، ارتقاء اور تخلیق کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ صوفیانہ روایت میں فنا کو کمال سمجھا گیا، مگر اقبال کے نزدیک زندگی فنا نہیں، بقا ہے، مٹ جانا نہیں، بڑھ جانا ہے۔ ان کے نزدیک زندگی ایک "بے قرار اور مسلسل جذب کرنے والی حرکت" ہے، جو ہر رکاوٹ کو نئی قوت میں بدل دیتی ہے۔

اقبال کے نزدیک مردِ مومن وہ نہیں جو ترکِ دنیا میں سکون پائے، بلکہ وہ ہے جو خدا کی مشیّت کے اظہار میں شریک ہو۔ خودی کا اثبات دراصل اس آگہی کا نام ہے کہ انسان میں خدا کی تخلیقی چنگاری موجود ہے، اسے پہچاننا، سنوارنا اور دنیا کی تعمیر میں استعمال کرنا ہی بندگیِ حقیقی ہے۔ قرآن کا یہ اعلان، "میں نے تجھے زمین پر اپنا خلیفہ بنایا"، اسی نظریۂ خودی کا مرکز ہے۔ انسان کی تقدیر دنیا سے فرار نہیں بلکہ دنیا پر اخلاقی و روحانی برتری ہے۔

اقبال کی خودی بیک وقت روحانی بھی ہے اور اخلاقی بھی۔ یہ انسان سے ضبطِ نفس، جدوجہد اور عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ شخصیت کو مٹانا نہیں بلکہ تراشنا ہے۔ اقبال کے نزدیک خودی کو پروان چڑھانا دراصل خدائی صفات کو اپنی ذات میں جذب کرنا ہے، خلاقیت، عدل، رحم، حوصلہ، تاکہ انسان خدا کے اخلاق کا مظہر بن جائے۔

یہی وہ مقام ہے جہاں اقبال مغرب اور مشرق دونوں سے جدا کھڑے نظر آتے ہیں۔ مغرب میں خودی، خودپرستی بن جاتی ہے اور مشرق میں خودی، خودفراموشی میں گم ہو جاتی ہے۔ اقبال نے ان دونوں کے بیچ قرآن کی روشنی میں ایک تیسرا راستہ دکھایا، ایسا راستہ جہاں خودی کو نہ کبر میں بگاڑا جائے نہ زہد میں مٹایا جائے، بلکہ اسے عشق، علم اور عمل کے ذریعے حقیقتِ انسانی میں بدلا جائے۔

پروفیسر نکلسن مشرقی روحانیت کے عادی تھے، وہ شاید یہ اندازہ نہ لگا سکے کہ اقبال کا یہ مکتوب ایک فکری انقلاب کی بنیاد رکھے گا۔ اس خط میں اقبال نے محض اپنی وضاحت نہیں کی بلکہ مسلمان ذہن کی فکری خودمختاری کا اعلان کیا۔ انہوں نے باور کرایا کہ ان کی تحریک کا سرچشمہ نہ نیٹشے ہے، نہ گوئٹے، بلکہ قرآن کی وہ ابدی صدا ہے جو انسان کو خودی، عمل اور قیادت کی دعوت دیتی ہے۔

آج جب انفرادیت خودغرضی میں بدل چکی ہے اور روحانیت گوشہ‌نشینی کا بہانہ بن گئی ہے، اقبال کا پیغامِ خودی ہمیں توازن کی یاد دلاتا ہے، زندگی کی اثباتی روح، مقصد سے بھرپور عمل اور جدوجہد کے ذریعے عروج۔

اقبال ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ انسان فنا کے لیے نہیں، بقا کے لیے پیدا ہوا ہے، مٹنے کے لیے نہیں، جگمگانے کے لیے، تاکہ وہ خدا کی صفات کا آئینہ بن کر روشنی پھیلائے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali