Bhooli Bisri Lahu Ki Kahani, Jammu Ka Zakham
بھولی بسری لہو کی کہانی، جموں کا زخم

کشمیر کی کہانی ہمیشہ سری نگر سے شروع کی جاتی ہے۔ گویا یہی اس قصے کا واحد دروازہ ہے۔ مگر آسٹریلوی مورخ کرسٹوفر سنیڈن اس روایت کو الٹ دیتا ہے۔ وہ داستان کی ابتدا وہاں سے کرتا ہے جہاں اصل المیہ وقوع پذیر ہوا، جموں اور یہی وہ موڑ ہے جہاں سے وہ قاری کے دل کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔
کتاب کے دوسرے باب "The People: Dividing Jammu and Kashmir" میں سنیڈن اس سانحے کو سامنے لاتا ہے جس پر دہائیوں سے خاموشی چھائی ہوئی ہے، 1947ء میں جموں کے مسلمانوں کا قتلِ عام۔ ڈوگرا راج ٹوٹتا ہے، انگریز رخصت ہوتے ہیں اور اچانک پوری فضا خون سے بھر جاتی ہے۔ پناہ گزینوں سے بھری ریلیں راستے ہی میں غائب ہو جاتی ہیں، بستیاں جلا دی جاتی ہیں، خاندان مٹا دیے جاتے ہیں۔ ایک پوری تہذیب لمحوں میں راکھ ہو جاتی ہے اور دنیا بے خبر رہتی ہے۔
سنیڈن کی خوبی یہ ہے کہ وہ جذباتی نعرے نہیں لگاتا، بلکہ حقائق خود بولنے دیتا ہے، برطانوی ریکارڈ، بھارتی ماخذ، پاکستانی دستاویزات، سب اس بھیانک سچ کی تصدیق کرتے ہیں اور وہ سچ یہ ہے کہ جموں کے ان مہاجرین نے ہی آگے چل کر آزاد کشمیر کی تحریک کو جنم دیا۔ جسے تاریخ میں "قبائلی حملہ" کہا گیا، وہ دراصل ایک زخم خوردہ قوم کا انتقام تھا، درد اور بے بسی کا ردِ عمل۔
اس باب کا اصل مرکز یہی ہے کہ ان گمنام روحوں کو تاریخی وقار واپس دیا جائے جنہیں زمانے نے فراموش کر دیا۔ دنیا وادی کے پنڈتوں اور ہندوؤں کی ہجرت تو یاد رکھتی ہے، مگر کسی کو جموں کے مسلمانوں کا خون یاد نہیں۔ سنیڈن کہتا ہے کہ کشمیر مسئلہ کوئی سفارتی اصطلاح یا اقوامِ متحدہ کی قرارداد نہیں، یہ انسانی سانحہ ہے، گھروں سے بے دخل ہونے والے وہ لوگ جن کی چیخیں کبھی کسی نے نہ سنیں۔
سنیڈن کسی پر الزام نہیں دھرتا، صرف آئینہ دکھاتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کسی ایوان کی میز پر نہیں پیدا ہوا، یہ تو ان گلیوں میں جنما جہاں لاشیں گریں اور خواب بکھر گئے۔ یہی اس باب کی تلخی ہے اور یہی اس کی سچائی۔
آج بھی جب کشمیر پر سیاست کے شور میں ضمیر کی آواز دب جاتی ہے، سنیڈن کی یہ کتاب خاموش مگر مضبوط لہجے میں کہتی ہے:
"رک جاؤ، سنو"۔
امن تبھی ممکن ہے جب تاریخ کے زخموں کو تسلیم کیا جائے۔ جب تک جموں کے مسلمانوں کے خون کو یاد نہیں کیا جاتا، کشمیر کی آزادی ادھوری رہے گی اور المیہ یہ کہ وہ زخم آج بھی رستا ہے۔ جموں کے مہاجرین کی نسلیں آج بھی انصاف کی راہ تک رہی ہیں، خیموں سے مکانوں تک، یادوں سے حقیقت تک۔
جب تک ان کی تکلیف کو تاریخ کا حصہ نہیں بنایا جاتا، کشمیر کی کہانی بس ایک نامکمل باب بنی رہے گی، ایک ایسی کتاب جسے کوئی انجام تک نہیں پہنچانا چاہتا۔

