Aik Fikri Mukalme Ka Sanjeeda Tajzia
ایک فکری مکالمے کا سنجیدہ تجزیہ

ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں، اس کی سب سے نمایاں پہچان یہ ہے کہ یہاں شور کو فکر، شہرت کو سچ اور اسکرین کو معیارِ حق سمجھ لیا گیا ہے۔ دلیل اب خاموش ہوتی جا رہی ہے اور آواز کی بلندی کو برتری کی علامت بنا لیا گیا ہے۔ مکالمہ، جو کبھی فکری ارتقا کا ذریعہ تھا، اب مناظرے اور تماشے میں بدل چکا ہے۔ ایسے میں اگر کہیں سنجیدگی، تحمل اور علمی وقار کے ساتھ گفتگو سامنے آ جائے تو وہ محض ایک واقعہ نہیں رہتی بلکہ ایک فکری علامت بن جاتی ہے۔
حال ہی میں برصغیر میں ہونے والی ایک نشست بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ بظاہر یہ دو افراد کے درمیان گفتگو تھی، مگر حقیقت میں یہ دو متضاد فکری زاویوں کا آمنے سامنے آنا تھا۔ ایک طرف فلمی دنیا کی چکاچوند، دہائیوں پر محیط شہرت، میڈیا کی طاقت اور لفظوں کی بازی گری کا نمائندہ موجود تھا اور دوسری جانب ایک ایسا شخص تھا جس کا سرمایہ نہ اسکرین تھی نہ شہرت، بلکہ علم، استدلال، مطالعہ اور فکری ٹھہراؤ تھا۔ یہی فرق اس مکالمے کی اصل روح بن گیا۔
ہمارے معاشرے میں ایک عمومی نفسیات پائی جاتی ہے کہ مشہور شخص کی بات خود بخود وزن اختیار کر لیتی ہے۔ اس کے جملے دلیل بن جاتے ہیں اور اس کے شکوک سوال سے بڑھ کر فیصلہ سمجھے جانے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ ایسے افراد کے سامنے یا تو مرعوب ہو جاتے ہیں یا پھر جذباتی ردِعمل کا شکار ہو کر گفتگو کا وقار کھو بیٹھتے ہیں۔ مگر اس نشست میں یہ دونوں کیفیات دکھائی نہ دیں۔ یہاں گفتگو نہ شخصیت کے رعب سے مرعوب تھی، نہ جذبات کے بوجھ تلے دبی ہوئی۔ بات صرف خیال کی ہو رہی تھی، دلیل کی سطح پر۔
خدا کے وجود سے انکار کا بیانیہ عموماً ایک سادہ مگر فریب دینے والے جملے سے شروع ہوتا ہے کہ جو چیز نظر نہ آئے یا سمجھ میں نہ آئے، وہ قابلِ قبول نہیں۔ یہ دعویٰ بظاہر عقلی محسوس ہوتا ہے، مگر درحقیقت یہ انسانی علم کی حدود کو کائنات کی حدود سمجھ لینے کا نام ہے۔ اس مکالمے میں اسی بنیادی نکتے کو نہایت سکون اور سادگی سے واضح کیا گیا کہ کسی حقیقت کا ہمارے ادراک میں نہ آنا، اس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ لاعلمی، حقیقت کی نفی نہیں بلکہ انسان کی محدودیت کا اعلان ہوتی ہے۔
یہ بات بڑے متوازن انداز میں سامنے آئی کہ انسانی علم خود ارتقا پذیر ہے۔ وہ چیزیں جو کبھی ناقابلِ تصور تھیں، آج سائنسی حقیقت بن چکی ہیں۔ ایسے میں محض ذاتی فہم یا احساس کی بنیاد پر کائنات کے حتمی حقائق کو رد کر دینا، خود ایک غیر عقلی رویہ ہے۔ یہاں بحث خدا کے وجود سے زیادہ، انسان کے علم کی نوعیت پر مرکوز ہوگئی اور یہی مکالمے کی اصل کامیابی تھی۔
گفتگو آگے بڑھی تو وہی روایتی سوال سامنے آیا جو اکثر مذہب پر اعتراض کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ اگر خدا موجود ہے تو دنیا میں اتنا دکھ، اتنی ناانصافی اور اتنی تکلیف کیوں ہے۔ یہ سوال جذباتی وزن ضرور رکھتا ہے، مگر اس کا جواب محض جذبات سے نہیں دیا جا سکتا۔ یہاں یہ بات بڑے فکری توازن کے ساتھ واضح کی گئی کہ دکھ اور آزمائش خدا کی عدم موجودگی نہیں بلکہ انسانی اختیار اور مقصدیت کی دلیل ہیں۔ اگر زندگی محض آرام اور سہولت کے لیے ہوتی تو اخلاق، ذمہ داری، قربانی اور صبر جیسے تصورات بے معنی ہو جاتے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نکتہ اسی زبان میں سمجھایا گیا جس زبان سے اعتراض جنم لے رہا تھا۔ کہانی، اسکرپٹ اور کردار کی مثال دے کر واضح کیا گیا کہ کسی بھی بامقصد داستان میں مشکلات ناگزیر ہوتی ہیں۔ بغیر آزمائش کے نہ کردار نکھرتا ہے، نہ مقصد واضح ہوتا ہے۔ یہی اصول زندگی پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ دنیا کوئی تفریح گاہ نہیں بلکہ ایک امتحان گاہ ہے، جہاں ہر انسان کو انتخاب کی آزادی دے کر آزمایا جا رہا ہے۔
اس پوری گفتگو میں جو چیز سب سے نمایاں رہی، وہ لہجے کا وقار تھا۔ طنز آیا، بات کو ہلکا بنانے کی کوشش ہوئی، موضوع سے ہٹنے کے پہلو بھی پیدا کیے گئے، مگر جواب ہر بار دلیل، تحمل اور شائستگی کے ساتھ دیا گیا۔ نہ آواز بلند ہوئی، نہ تلخی پیدا ہوئی۔ یہی وہ مقام تھا جہاں اخلاقی برتری خود بخود واضح ہوگئی۔ کیونکہ جو شخص سچ پر مطمئن ہوتا ہے، اسے چیخنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
یہ مکالمہ دراصل ہمارے لیے ایک آئینہ ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ فکری مضبوطی کا راستہ شور سے نہیں، شعور سے ہو کر گزرتا ہے۔ کہ علم، شہرت سے زیادہ طاقت رکھتا ہے۔ کہ شائستگی کمزوری نہیں بلکہ اعتماد کی علامت ہے اور یہ کہ مناظرہ وقتی تالیاں تو دلا سکتا ہے، مگر مکالمہ دیرپا اثر چھوڑتا ہے۔
آج ہمیں اسی طرزِ فکر کی ضرورت ہے۔ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ اختلاف کو دشمنی میں بدلنے کے بجائے سوال میں ڈھالا جائے۔ کہ گالی کے جواب میں گالی نہیں، دلیل دی جائے اور یہ کہ کسی بھی فکری بحث میں اصل کامیابی مخالف کو نیچا دکھانا نہیں بلکہ سچ کو واضح کرنا ہوتی ہے۔
تاریخ نے ہمیشہ یہی ثابت کیا ہے کہ آوازیں وقت کے ساتھ دب جاتی ہیں، مگر فکر زندہ رہتی ہے۔ جو لوگ شور مچاتے ہیں، وہ اپنے دور تک محدود رہتے ہیں اور جو لوگ سوچ کو جِلا دیتے ہیں، وہ زمانوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی اس مکالمے کا اصل پیغام ہے اور یہی وہ راستہ ہے جسے اپنانے کی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

