Siyasat Chaabuk Se Nahi Balkay Lachak Se Chalti Hai
سیاست چابک سے نہیں بلکہ لچک سے چلتی ہے
یاد رکھیں! آپ کی بات کا وزن اُونچا بولنے سے کم ہوتا ہے کیونکہ بات کے موثر ہونے کا تعلق صرف استدلال سے ہے۔ اسمبلیوں میں گلا پھاڑ پھاڑ کے بولنے اور چیخ چیخ کے اپنی طاقت اور قوم کا سرمایہ ضائع کرنے والے اگرآہستگی اور دھیما پن اختیار کر لیں تو یقیناً قوم کے مینڈیٹ کا حق ادا ہو جائے گا ورنہ اک طوفان بدتمیزی برپا رہے گا۔ وہ جو سیانے کہتے ہیں کہ اچھے دوست اور مخلص رشتہ داروں کا اُس وقت پتا چلتا ہے جب کوئی بندہ بُرے حالات کے بھنور میں پھنسا ہو، اسی طرح ایک اچھے اور سچے لیڈر کا بھی اُس وقت امتحان شروع ہوتا ہے۔ جب اُس کی قوم پر بُرا وقت اور مشکل گھڑی آئے۔ آج ملکی سیاسی قیادت سمیت پوری قوم کو اپنی ذہنی حالت کو درست کرتے ہوئے اپنی ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا تاکہ اپنا اور آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکے۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ منافق اور موقع پرست ہمیشہ اپنے فائدے کے لیے کسی کی بھی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے لیے تیار رہتا ہے کیونکہ اُس کا اخلاقیات پریقین نہیں ہوتا۔ آج غیر ملکی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے مختلف سیاسی منجن بیچنے والے ہر جگہ سے زچ ہو کراب حب الوطنی کا چوغا پہن کر اداروں کے خلاف جو راگ الاپ رہے ہیں وہ بھی جلد اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ پاکستان کا بچہ بچہ اپنے وطن سے پیار کرتا ہے اور پاک فوج کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑا ہے۔ ہماری ا فواج کے جوان جذبہ شہادت، پیشہ ورانہ مہارت اور بے مثال جرات و بہادری کا پیکر ہیں اور پوری قوم کو اپنے بیٹوں اور سجیلے جوانوں پر ناز ہے۔ زندگی کی اصل اُڑان ابھی باقی ہے، ابھی تو ناپی ہے مٹھی بھر زمین ہم نے، ابھی تو پورا ہندوستان باقی ہے۔
اگر ہم پاکستان کی سیاسی تاریخ پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں نے سیاسی بلوغت اور رابطہ کاری کی وجہ سے اپنی مشکلات کو آسانیوں میں بدل لیا۔ بُرے حالات میں بھی ملکی سالمیت اور خود مختاری کو آنچ نہ آنے دی بلکہ جمہوری عمل میں شریک رہ کراپنے سیاسی سفر کو جاری رکھا۔ پی ٹی آئی ایک مقبول سیاسی جماعت ہے مگر چیئرمین کی آمرانہ اسوچ کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوگئی ہے۔ الیکشن ہوگئے مگر چیئرمین پی ٹی آئی ابھی تک 2013ء کے الیکشن والے ذہن کے ساتھ سوچتے ہیں۔ جس میں چار حلقوں کی جانچ پڑتال کو بنیاد بنا کر ملکی اقتصادی حالت کو بگاڑا گیا۔
جب کمیشن نے ان حلقوں کا ازسرنو جائزہ لیا تو عمران خان کا بیانیہ ٹھس ہوگیا۔ 2024ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے سنگل لارجسٹ پارٹی ہوتے ہوئے بھی حکومت بنانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ شاید ذہنی طور پرعمران خان اپنا متبادل کسی کو بھی نہیں سمجھتے۔ بہرحال پی ٹی آئی کی جانب سے ایک بار پھر سے دھاندلی کا الزام ہے۔ جس کے پس پردہ ملک کی معیشت اور امن کو برباد کرنے کی پالیسی پر عمل شروع ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف کو امداد روکنے کا خط پہلی کڑی ہے جبکہ دوسری طرف کپتان کی جانب سے کل تک کے ایسے سیاسی دشمنوں کو گلے لگایا جا رہا ہے، جو آج ملکی اداروں کے خلاف غلط زبان استعمال کر رہے ہیں اور احتجاج کے لیے لوگوں کو باہر نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انہی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے فضل الرحمان سے بات چیت ہو رہی ہے جبکہ محمود خان اچکزئی کو صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔ اگر ہم غیر جانبدارانہ رہتے ہوئے عمران خان کی موجودہ پالیسیوں پر نظر ڈالیں تو کہہ سکتے ہیں کہ اُن میں سیاسی بلوغت کی کمی اور اقتدار کی کرسی پر جلد بیٹھنے کی خواہش حاوی نظر آتی ہے جبکہ اُن کی موجودہ ترجیحات میں ملک و قوم کی فلاح و بہتری کا عنصر دور دور تک نظر نہیں آتا۔ ایک کہاوت ہے کہ شادی کے بیس سال بعد ایک خاتون آئینہ کے سامنے اپنے بڑھاپے کے آثار دیکھ کر بہت پریشان ہوئی۔ تب اپنے خاوند سے بولی کہ مجھ پر کوئی مثبت تبصرہ کرو۔ اس پر اُس کا خاوند بولا"ماشاء اللہ! ابھی تک قریب کی نظر ٹھیک ہے"۔
اس کہاوت کے ذریعے اپنی سیاسی اشرافیہ کو یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ ابھی بھی آپ لوگوں کے لیے سنبھلنے کا وقت باقی ہے وگرنہ ہماری نوجوان نسل نے الیکشن کے دن باہر نکل کر اپنے خوبصورت طرز عمل سے موجودہ سیاسی قوتوں کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ انقلاب کے لیے انتشار ضروری نہیں ہوتا بلکہ مثبت اور پُرامن انداز سے ہی مستقل تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ پوری دنیا کے جمہوریت پسند عوام اس مسلمہ حقیقت پر یقین رکھتے ہیں کہ سیاست چابک سے نہیں، لچک سے چلتی ہے۔
اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی نوجوان نسل کی جانب سے ملنے والے بھاری مینڈیٹ کی کیسے ْقدر کرتی ہے اور نوجوان نسل کی امنگوں پر پورا اُترنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہے؟ دوسری جانب اس بات کو جاننے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنی صفوں میں چھپے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو پہچان لیں اور اللہ کے اس فرمان پر کاربند ہو جائیں"اپنے امیر پر بھروسہ کرو اور اُس کے فیصلوں کی اطاعت کرو"۔ یہ بات جان لیں کہ اللہ کے اس فرمان پر عمل میں ہی ہماری حقیقی نجات ہے۔