Riyasat e Madina Ka Safar
ریاست مدینہ کا سفر
ہمارے قوم کے نصیب بھی کیا عجیب ہیں۔ نصیب لکھنے والے نے نصیب بنانے اور سنوارنے کے لیے بندے پیدا ہی نہیں کیے۔ اب پتا چلا کہ چند سال پہلے تبدیلی کے نام پر پڑھایا جانے والا نیاسبق دراصل مغربی تھنک ٹینک کی اختراع تھی جس میں کرپشن، میرٹ اور دیگر خرابیوں کے خلاف جہاد کے ساتھ ریاست مدینہ کی پیوند کاری بھی کی گئی تھی۔ بچاری عوام نے کرپشن فری پاکستان، میرٹ، گرین پاسپورٹ کی عزت، وسیع روزگار اور انصاف کی بحالی والی باتوں پر یقین کر لیا اوریوں عمران خان مسند اقتدار پر براجمان ہوئے مگر افسوس اس ساری محنت کا صلہ صحت کارڈ کی چوسنی، پناہ گاہ جیسا قبرستان، اب بھوکا کوئی نہیں سوئے گا جیساکھوکھلا نعرہ، جوان پروگرام کا سیراب اور اپنا گھر جیسے خواب کی صورت میں ملا۔ حکومتی اقدامات دیکھ کر لگتا ہے کہ دراصل عمران خان ریاست مدینہ کی نہیں بلکہ ریاست یثرب کی بات کرتے تھے جہاں بد دیانتی کا بازار گرم تھا، کرپشن عام تھی، انصاف کا قتل ہوتا تھا، اقربا پروری کا رجحان تھا، مافیاز کا قبضہ تھا، بت پرستی عام تھی، خدا کے قوانین کا مذاق اُڑایا جاتا تھا مگرسپیچ رائٹر کی لفظی غلطی سے عمران خان اپنی تقریروں میں ریاست مدینہ کا نام لیتے رہے جبکہ اُن کا مطمع نظر اور مشن بے دین معاشرہ کی تشکیل، ملاوٹ زدہ کاروبار کا فروغ، کرپٹ مافیاز کی حمایت، اقرباء پروری، علماء کی تذلیل اوردینی، معاشرتی، ثقافتی اخلاقیات کی تباہی ہے۔
کسی بھی ملک کی تباہی کے لیے یہ ہی کافی ہوتا ہے کہ اس کا حکمران اپنے قول وفعل میں تضاد رکھتا ہو۔ جو چالاکی کے ساتھ ہر وقت اپنی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرے مگر مستقبل میں پھر غلط فیصلے کرے۔ وزیر اعظم صاحب کہتے ہیں کہ انہیں اپنی حکومت کی کارکردگی پرفخر ہے یعنی ملک میں آٹا اورچینی غائب اور مہنگائی کا بازار گرم ہے مگر وزیر اعظم مطمئن ہیں۔ دوسری طرف عمران خان کے دوستوں میں وزارتو ں کی کرسیاں بانٹی جاتی ہیں اور یوں تین سال سے میوزیکل چیئر کاسلسلہ جاری ہے۔ کسی کی نااہلیت یا قابلیت جانچنے کی ضرورت نہیں کیونکہ تابعدار خان کو بندے بھی تابعدار مگر۔۔ نالائق چاہیے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ"ایاک نعبدو و ایاک نستعین"سے بات شروع کرنے والا اب خودمصلحتوں اور باریکیوں کے اندر پناہ لیتا نظر آتا ہے جہانگیر ترین کے حواریوں سے ملاقات کے فوراً بعد ایف آئی اے کا افسر تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ عاشق رسول کہلانے والا وزیر اعظم نام نہاد انتہا پسند مذہبی جنونیوں کے معاملے پر خود شدت پسنداور جنگجوبن جاتا ہے قومی اسمبلی میں لبیک کی قرارداد پیش کر کے اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر کے جھوٹ و مکر کے راستے کا مسافر بنتا نظر آتا ہے جبکہ دوسری طرف پی پی پی کے بائیکاٹ اور نون لیگ کے ممبران کی بھاری اکثریت نے کس کے اشارے پرشرکت ہی نہیں کی؟
اسلام کی سربلندی کا نعرہ لگانے والی سیاسی اور مذہبی جماعتیں نبی پاک ﷺ کی شان کی رکھوالی والی قرارداد والے اجلاس سے یوں منہ موڑ لیں اور قرارداد بھی حکومتی ممبر سے پیش نہ کروائی جائے تو عوام حق بجانب ہیں کہ ریاست مدینہ کی بات کرنے والے حاکم وقت سے سوال کریں کہ اب"ایاک نعبدو و ایاک نستعین" والی آیت کہاں گم ہو گئی ہے؟ دوسری طرف اگر ہم دیکھیں تو یورپی یونین نے فرانس کے حق میں اور پاکستان کے خلاف ایک قرارداد منظور کی ہے اور اب کی بار امریکہ نہیں بلکہ یورپ کے ممالک پاکستان سے ڈومور کہہ رہے ہیں اور اس کا واحدسبب حکمرانوں کاکمزور ایمان اور نصرت الہی سے ناواقفیت ہے۔ پی ٹی آئی کے وزراء کی ٹک ٹاک کی آوارہ گرلز کے ساتھ بے ہودہ تصاویر اور ویڈیوز جاری ہونے پر بھی اسلامی جمہوریہ میں "ایاک نعبدو و ایاک نستعین" کی تسبیح کرنے والے وزیر اعظم نے کبھی بھی کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا؟ کیا ایک اسلامی معاشرہ اس طرز عمل کی حمایت کرتا ہے؟ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ سیکولر جماعت پی پی پی اور نیم مذہبی جماعت نون لیگ کے ا دوار میں کبھی بھی علماء کرام کی یو ں تذلیل نہیں کی گئی تھی جس طرح سے پی ٹی آئی کے وزراء کھلم کھلا چینلز پر مذہبی شخصیات پر کیچڑ اچھالتے اور جید علماء کی تذلیل کرتے ہیں اور پھرڈھٹائی سے مذہب کو کسی بھی شخص کا ذاتی فعل قرار دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا "ایاک نعبدو و ایاک نستعین" اور "ریاست مدینہ" کی عملی تفسیر سیکولر ذہن کے وزراء بتائیں گے جو ایک خاص مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں؟
چند سالوں سے فحاشی اور بد تمیزی کا ایک مظاہرہ باقاعدگی سے سجایا جا رہا ہے جس میں اسلامی شعار اور اسلامی عقائد پر کھلے عام نقید ہی نہیں کی جاتی بلکہ اُن کا تمسخر بھی اُڑایا جاتا ہے اور اس کو "عورت مارچ" کا نام دیا گیا ہے۔ اس سال "عورت مارچ" کے شرکاء کو حکومتی سرپرستی میں پولیس اور رینجرز کے حفاظتی حصار میں پہلے سے زیادہ واہیات نعروں اور پلے کارڈز کے ساتھ کام کرنے دیا گیا۔ کیا "ایاک نعبدو و ایاک نستعین" کی عملی تفسیر یہ ہیجان انگیز تماشہ ہے؟ (استغفراللہ)۔ وقت آہستہ آہستہ اس بات کو ثابت کررہا ہے کہ عمران خان کی حکومت لانے میں پاکستانی عوام سے زیادہ عالمی اداروں کی مرضی شامل تھی جو ایک مخصوص ایجنڈے کے فروغ کے لیے ایسا انسان چاہتے تھے جو عوام میں مقبول بھی ہو اور ظاہری طور پر اسلام کا نام بھی لیتا رہے مگر عملی طور پر مغرب سے مستعار لیا گیا "مارڈریٹ اسلام" کو ملک میں نافذ کرے۔ حکومتی سطح پر اسلام سے وابستہ طبقوں کی تذلیل کی جائے اور اسلامی عقائد کو عقلی بنیادوں پرجانچنے کی شعوری کوشش کی جائے تاکہ عوام الناس میں اس سوچ کو اختیار کرنے کا رجحان بنے۔ مغرب ہمارے لوگوں کے ساتھ انتہائی خطرناک چال چل چکا ہے اور اس کے مضمرات اب کھل کر سامنے آنے لگے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ عوام اس "ریاست یثرب" کے معمار سے جان چھڑا لیں ورنہ"داستان بھی نہ ہو گی داستانوں میں "۔ یاد رکھیں! اللہ اور اُس کے محبوبﷺ سے جڑے رہنے میں بھی آفاقی کامیابی ہے اور ان کی ناموس کی خاطر مرناایک عظیم کامیابی کی نشانی ہے۔