Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Imran Amin
  4. Pakistan Main Nifaz e Urdu

Pakistan Main Nifaz e Urdu

پاکستان میں نفاذ اُردو

کوئی بھی قوم ترقی کے میدان میں اُس وقت تک ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتی، جب تک اُس کے افراد کی غالب اکثریت زیور تعلیم سے آراستہ نہ ہو۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ حصول علم کے ساتھ زبان کا گہرا تعلق ہے لہذا زبان کا انتخاب علم حاصل کرنے کے لیے نہایت اہم ہے۔ افراد کی ذہنی سطح اُور مخصوص دینی، ادبی اُور ثقافتی پس منظر میں ایک قومی زبان کی تشکیل، حصول علم کو آسان بنا دیتی ہے۔ انگریزی عہدحکومت میں یہ سوال کئی بار مسلمانان ہند کے سامنے آیا کہ اُن کی علمی، اخلاقی، ذہنی اُور سیاسی نشوونما اُور ترقی کے لیے اُردو زبان ہی کو ذریعہ تعلیم ہونا چاہیے۔ اُس دور میں فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، اُورینٹل کالج لاہور اُور سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ جیسے عظیم ادارے کام کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انجمن ترقی اُردو، جامعہ عثمانیہ اُور دارالمصنفین جیسے شاندار ادارے بھی وجود میں آئے۔

نئی علمی، ادبی اُور دیگر اصطلاحات وضع ہوئیں، سنجیدہ مضامین تحریر ہوئے، زبان میں سلاست اُور روانی پیدا ہوئی، ترجمعہ و تالیف کا کام بھی ہوا۔ غرضیکہ اُس دُور میں اُردو زبان میں مغرب کے جدید علوم کی ترویج کے لیے راستے ہموار ہوئے۔ مگر بد قسمتی سے ہندؤ قوم کے تعصب کے علاوہ خود انگریز کا سیاسی اُور تمدنی نظریہ حیات اُور اُس کی حاکمانہ مصلحتیں، مسلمانوں کے اخلاقی، تمدنی، سیاسی اُور معاشی اُصولوں اور نظریات سے چونکہ مکمل متصادم تھیں۔ اس لیے یہ سب عوامل اُردو زبان کی کامیابی میں حائل ر ہے اُور یوں انگریزی زبان کو زبردستی اس خطے پر مسلط کیا گیا۔ اس اقدام کے پیچھے محرکات لارڈ میکالے ہی کی زبان سے سُن لیں۔"ہم انہیں (ہندوستانی مسلمانوں کو) ا ُس تعلیم سے محروم کر رہے ہیں جسے حاصل کرنے کے یہ شدید آرزو مند ہیں "۔ یہ صاحب مزید کہتے ہیں "انگریزی نظام تعلیم سے ہمیں ایسا طبقہ وجود میں لانا ہے جو خون اُور رنگ کے اعتبا سے ہندوستانی ہو، مگرذوق، طرز فکر، اخلاق اُور فہم و فراست کے نقطہ نظر سے انگریز ہو"۔ اُس زمانے میں اس خطرے کو بھانپ کر علمائے ہند نے انگریزی زبان کی مخالفت کی تھی۔

اُن کا ہرگز یہ نقطہ نظر نہ تھا کہ غیر مُلکی زبان کو سیکھنا، غیر اسلامی ہے۔ علمائے ہند نے اپنی دُور اندیشی کی بنا پر محسوس کیا تھا کہ یہ صرف زبان کی تبدیلی تک بات نہ رہے گی بلکہ انگریزی غلبہ زبان اپنے ساتھ یورپی تہذیبی، تمدنی، معاشرتی اُور اخلاقی بد اثرات بھی لائے گا۔ انگریزی سیاسی غلبہ، انگریزی طرز معاشرت اُور نظام اخلاق کی خرابی کے ساتھ حملہ آور ہو کر محکوم قوم کے فکر و نظر کو بدل کر رکھ دے گا۔ اگر آج ہم غیر جانبدارانہ دیکھیں تو علماء کاوہ خدشہ غلط نہ تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی اس آزاد پاک سرزمین میں ایک طبقہ ایسا موجودہے جو انگریزی زبان کو بندریا کے بچے کی طرح اپنے سینے سے چمٹائے بیٹھا ہے۔ دراصل یہ وہ طبقہ ہے جو انگریزی تہذیب و تمدن کی آغوش میں پلا اُور جس نے انگریزی زبان کو نہ صرف اپنایا بلکہ اس سے فائد بھی اُٹھایا۔ ہمیشہ انگریزی کی سرپرستی کی اُور جب بھی اُردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کی بات ہوئی تو اس بات کی مخالفت کی۔ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ یورپ اُس وقت تک اندھیروں میں ڈوبا رہا جب تک سارا یورپ لاطینی اُور یونانی زبانوں کے چنگل میں پھنسا رہا۔

مگر جونہی مقامی زبانوں نے زور پکڑا تو بیمار، لاغر، بگڑاا ُور غیر منظم یورپ ایک طاقت بن گیا۔ اگرفرانس، جرمن، روس، جاپان، اٹلی اُور دیگر یورپی ممالک کے بارے میں کوئی کہے کہ اُنہوں نے انگریزی زبان کی وجہ سے موجودہ ترقی حاصل کی ہے، تو ایسے شخص کو کم علم سمجھا جائے گا۔ آج کی تجارتی دنیا کا بادشاہ، چین کسی غیر کی زبان اپنا کر ترقی کی منازل طے نہیں کر سکا بلکہ اپنی زبان، اپنے تمدن اُور اپنی تہذیب کو لے کر ساری دنیا کی تجارت کو قابو کر رہا ہے۔ خود برطانیہ میں ترقی کی ابتداء اُس وقت سے ہوئی جس وقت انجیل کا انگریزی زبان میں ترجمعہ شائع ہوا۔ (اگراس ایک چھوٹی سے الہامی کتاب کے ترجمعہ سے اتنی روشنی پھیل سکتی ہے تو سوچیں!قرآن پاک جیسی ہمیشگی والی ضخیم کتاب اپنے اندر کیا جواہر رکھتی ہو گی؟)۔

انگریزی زبان کے عشق لا حاصل کی وجہ سے ہر سال ہمارے ہزاروں طالب علم امتحانات میں صرف اس فرنگی زبان میں ناکام ہو جانے سے معاشرے کی بہتری کے لیے اپنا موثر کردار ادا نہیں کر پاتے۔ ہم انگریزی زبان کے خلاف نہیں، انگریزی ضرور سیکھیں مگر سرکاری اُور عام رابطہ کی زبان صرف اُردو ہونی چاہیے، کیونکہ پاکستان میں بسنے والے بلوچی، سندھی، پنجابی، پختون، کشمیری اُورگلگت بلتستانی سب کی رابطہ کی زبان صرف اُردو ہے اُوراس زبان کی بدولت ہی سارا ملک ایک لڑی میں پرویا ہوا ہے۔ ہمیں قطعاً گوارہ نہیں کہ اپنے نوجوان طلباء کو اعلیٰ مدارج تعلیم میں اُردو زبان سے بیگانہ کر کے اپنے بہترین دینی، سیاسی، علمی، فکری اُور تاریخی ورثے سے محروم کر دیا جائے اُور اگر ہماری کم ہمتی اُور بے عملی کے نتیجے میں ایسا ہو جاتا ہے تو یہ ایک المناک حادثہ گردانا جائے گا اُور اس پر آئندہ کی نسلیں اُور مورخ ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان میں تیزی سے بیدار ہوتی قوم کو اب آہستہ آہستہ اپنے اصل مسائل سے آگاہی ہو رہی ہے۔ اللہ کرے! وہ دن جلد آئے جب ہم اپنے قائد کے فرمان کی لاج رکھیں اُور مقدس آئین کی شق کا احترام کرتے ہوئے مزید آئین شکنی کے مرتکب ہونے سے محفوظ رہ سکیں اُوریوں اپنے قائد کی بات اُور آئین کااحترام کرتے ہوئے اُردو کی قومی زبان کی حیثیت کو حکومتی سطح پر منوا سکیں۔

Check Also

Siasat Yoon Hoti Hai

By Mubashir Ali Zaidi