Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Imran Amin
  4. Opposition Ka Thandhi Thumri Par Disco Dance

Opposition Ka Thandhi Thumri Par Disco Dance

اپوزیشن‌ کا ٹھنڈی ٹھمری پر ڈسکو‌ ڈانس

پاکستان کی موجودہ سیاسی حالت واقعی قابلِ رحم ہے۔ سیاسی پارٹیاں اگرچہ تین ہی قابل ذکر ہیں مگر سمندرِ سیاست میں تلاطم کی سی کیفیت کچھ عرصہ سے تھمنے میں ہی نہیں آرہی، اگر مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کی بات کریں تو وہ "ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے" کے مصداق مزے سے اہل بندوق اور اہل ترازو کی چھتری تلے چین کی بانسری بجاتے ہوئے مشکل حالات اور معاملات کی بے یقینی میں سوشل میڈیا میں اپنی کارکردگی کا تڑکا لگانے میں مصروف ہے، جبکہ عوام الناس کو مزید قربانیوں کے لئے تیاری کا چورن بھی بیچ رہی ہے کیونکہ آئی ایم ایف سے سمجھوتے کے بعد ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان آنے والا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگرچہ اس بارحکمران ٹولہ پاکستانی عوام کی خدمت کا ارادہ رکھتا ہے کیونکہ انتخابی نتائج نے بتا دیا ہے کہ اس بار پوری قوم جعلی سبز باغ کی جگہ حقیقی سبزباغ دیکھنے کی متمنی ہے، مگر بد قسمتی سے حکمرانوں اور قوم کے حسین خوابوں کے درمیان پی ٹی آئی کا اناڑی پن اور عامیانہ رویہ رُکاوٹ ہے۔ پہلے آئی ایم ایف کو خط لکھ کر امداد روکنے کی کوشش کی گئی تو اس بار مملکت پاکستان کو یورپی یونین کی جانب سے 2014ء میں ملنے والے جی ایس پی پلس سٹیٹس کو ختم کرنے کی سعی کی جارہی ہے۔

سخت عوامی ردعمل آنے پر اگرچہ پی ٹی آئی نے اس بات کی نفی کی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اُن کی جماعت کے سوشل میڈیا کے آفیشل ہیڈ نے اس مہم کا آغاز کیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ پارٹی قیادت کی آشیر باد کے بغیر پی ٹی آئی سوشل میڈیا کا انچارج، ملک دشمنی میں ایسا قدم اُٹھائے؟ دوسری طرف پہلے ملاقات سے انکار اور مزاحمت کے اعلان کے بعد دبنگ وزیراعلیٰ الیکشن کمیشن کے ایک نوٹس پر اپڈیٹڈ سوفٹ ویئرکے ساتھ نہ صرف وزیراعظم سے ملے بلکہ ملاقات کو خوشگوار بھی قرار دیا۔

دوسری طرف عمران خان کے ماضی اور حالیہ بیانات کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں اُن کی شدید خواہش ہے کہ چونکہ وہ اقتدار سے باہر ہیں لہٰذا پاکستان کومالی طور پر دیوالیہ ہو نا چاہیے تاکہ پاکستان دوسرا سری لنکا بن سکے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اقتدار سے محرومی کے بعد سے عمران خان نہ صرف جلاؤ گھیراؤ، احتجاج، انقلاب اور خون ریزی کی گردان مسلسل کر رہے ہیں، بلکہ ملک کے تین ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کی بھی بات کرتے ہیں، مگر دوسری طرف ملک میں امن و امان قائم کرکے ابتر اقتصادی حالت کو سنوارنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کر رہے اور نہ سیاسی کشیدگی میں کمی کرنے میں سنجیدہ نظر آتے ہیں۔

اگر ہم غور کریں تو اس وقت پی ٹی آئی کی سیاسی پالیسیوں میں نون لیگ کا رنگ نظر آنے لگا ہے جیسے کہ ایک وقت میں نواز شریف اداروں کے خلاف بولتے تھے جبکہ شہباز شریف اداروں اور نوز شریف کے درمیان رابطہ کار تھے اسی طرح لگتا ہے کہ عمران خان اور دیگر لوگ اداروں اور حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک چلائیں گے تاکہ ووٹ بینک متاثر نہ ہو جبکہ دوسری طرف بیرسٹر گوہر سمیت دیگر افراد اسمبلی میں بھی بیٹھیں گے اور سیاسی معاملات کو عدالتوں میں بھی لے جائیں گے یوں مستقبل میں ملکی سیاست میں ٹھنڈی ٹھمری پر ڈسکو ڈانس ہوتا نظر آتا ہے۔

پی ٹی آئی کے نئے سیاسی رہنماؤں کے لیے ایک نصیحت ہے کہ طوطا مینا کی کہانی میں ٹائیں ٹائیں فش کرکے اپنی موجودگی اور اہمیت کا غیر ضروری تاثر دینے کی ناکام کوشش میں اچھے بھلے کام کے رنگ میں ناحق بھنگ نہ ڈالا کریں کیونکہ اُن کا غیر سنجیدہ عمل مفاہمت کو مزاحمت میں بدل کر بنتے کام کو بگاڑنے کا سبب بن سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کو ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جو ہڈیاں گنگا میں بہہ جائیں، وہ کبھی واپس نہیں آتیں الغرض مجموعی طور پر ملک کے سیاسی میدان میں مفادات کا جمعہ بازار لگاہوا ہے۔

سیاسی پارٹیوں کے مفادات میں تضادات نے مملکت خداداد کو مشکل میں ڈال رکھا ہے جبکہ ملک میں عوامی حکومت ایک عجیب صورت میں کام کر رہی ہے۔ حکمران طبقے کو بھی اب سوچنا ہوگا کہ حالیہ الیکشن میں 34% ووٹ لینے والی اپوزیشن کے جائز مطالبات کو مانے اور ملکی سلامتی و عوامی مفاد کے لئے 9 مئی سے آگے بڑھے۔ قوم اس بار توقع رکھتی ہے کہ اُن کا حکمران محض اپنی ذات اور اُولاد کے لئے ہی شجر رحمت نہ بنے بلکہ غربت، مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن، لوڈشیڈنگ اور دیگر مسائل میں گھری ہوئی قوم کے لئے حقیقی درد رکھتا ہو اور زحمت کا سبب نہ بنے۔

دوسری طرف موجودہ حالات میں ہمیں کسی باہر کے دشمن کی ضرورت نظر نہیں آتی بلکہ پاکستان کے سیاسی اُفق پر "گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے" پوری آب و تاب سے نظر آتا ہے اگرچہ وطن دشمنی کے ایجنڈے پر عمل پیرا عناصر اپنی سی پوری کوشش میں مصروف ہیں، مگر ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستانی عوام نے اب فیصلے کا حق خود لے لیا ہے اور پوری قوم وسیع تر ملکی مفاد کو سیاسی وابستگیوں سے بالا ہو کر دیکھ رہی ہے۔

اُن کے علم میں ہے کہ ماضی میں کس طرح اُن کو جھوٹے خواب دکھائے گئے اور صرف اقتدار پر قابض رہنے کے لئے اُصولوں کو بھی قربان کیا گیا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کو حکمت و بصیرت کے ساتھ ملک کو خطرناک حالات سے نکالنے میں کامیابی عطا فرمائیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں، اس جدوجہد کی بدولت سکھ کا سانس لے سکیں۔

Check Also

Bushra Bibi Aur Ali Amin Gandapur Ki Mushkilat

By Nusrat Javed