Musalman Ki Nijat Ishq e Nabi Mein Hai
مسلمان کی نجات عشق نبی ﷺمیں ہے
دنیا کی زندگی کا تماشا اگرچہ چند روزہ ہے مگر اثرات قیامت تک چلتے ہیں۔ فیصلے زندگی میں کیے جاتے ہیں مگر ثمرات کبھی اس جہان فانی میں مل جاتے ہیں اور کبھی آخرت کے لیے سنبھالے جاتے ہیں۔ اللہ کا دین سچ ہے اورحق ہے جس نے اس کی سربلندی کے لیے ذرا برابر بھی کوشش کی تو گویا اُس نے اپنا نام اللہ کے پسندیدہ بندوں میں لکھوا لیا۔ مادی دنیا کی بد قسمتی دیکھیں کہ اس نے دنیا کی کامیابی کو ظاہری اشیاء اور اسباب سے جوڑ لیا۔ یوں مذہب کو انسانی زندگی میں ایک ثانوی حیثیت دی جانے لگی اور سب کچھ مادے سے منسوب کر دیا گیا اس کا اثر یہ ہوا کہ بالآخرمذہب کو ذاتی قرار دے دیا گیا۔ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ تحریک پاکستان میں مذہب کو بنیادی اہمیت حاصل تھی اور اس بنیاد پر ہی لاکھوں مسلمانان ہند نے خوشی سے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے آئندہ آنے والی نسلوں کو اپنی مذہبی اقدار کے ساتھ رہنے کے لیے ایک آزاد ملک دیا۔ بس یہ عجیب اتفاق ہے کہ کہ ملک ملنے کے بعد سے اہل اقتدار نے اپنے اقتدار کے دوام کے لیے مذہب کو ہمیشہ بطور سرخی پاؤڈر استعمال کیا تاکہ دین سے وابستہ اقدار کے وارث پاکستانی عوام اُن سیاسی قائدین کا ساتھ نہ چھوڑیں۔
ہمارا ملک ایسا ملک ہے جہاں سرعام عوامی جلسوں کے ساتھ ساتھ پارلیمینٹ کے اندر بھی ملک دشمنی کی بات کی جاتی ہے مگر قانون حرکت میں نہیں آتا۔ سلامتی کے اداروں اور اُن کے سربراہوں کی کردار کشی کی جاتی ہے مگر قانون حرکت میں نہیں آتا۔ معزز عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید کے ساتھ ساتھ ججوں کے کردار اور اعمال پر انگلیاں اُٹھائی جاتی ہیں مگر قانون حرکت میں نہیں آتا۔ عدالتوں کے من پسند فیصلوں کوتسلیم کیا جاتا ہے مگر مخالف فیصلوں کے خلاف عوامی تحریک چلانے کے ساتھ ساتھ معزز ججوں کا میڈیا ٹرائل بھی کیا جاتا ہے مگر قانون حرکت میں نہیں آتا۔ پاکستان میں چونکہ قانون جوں کی رفتار سے رینگتا ہے اس لییہزاروں افراد کے قاتل کی تفتیش مکمل کرنے اور فرد جرم عائد ہونے میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں، اربوں روپے کی کرپشن ثابت کرنے کے لیے کئی کئی ریفرنس دائر کرنے پڑتے ہیں، ہسپتالوں میں زیر علاج سیاسی قائدین کے کمروں سے برآمد شراب ہوتی ہے مگر بعد میں شہد بن جاتی ہے، سینٹ کے الیکشن میں سرعام روپیہ چلتا ہے اور ووٹ خریدے جاتے ہیں مگر سینیٹر معزز رکن کہلاتے ہیں، ایک ایم پی اے سرعام سڑک پر ٹریفک سارجنٹ پر گاڑی چڑھا دیتا ہے مگر عدالت سے بری ہو جاتا ہے، ساہیوال میں سیکیورٹی ادارے کے افراد ننھے بچوں کے سامنے ماں باپ کو گولیاں مار دیتے ہیں مگر ہنوز "عدل دور است"، ٹک ٹاک پر عزتوں کا جنازہ نکالنے والی لڑکیوں کے ساتھ اعلیٰ حکومتی ذمہ داروں کی اٹھکیلیاں میڈیا پر دکھائی جاتی ہیں مگر باتیں ریاست مدینہ کی ہوتی ہیں چند قریبی کھلاڑیوں کے درمیان بار بار وزارتوں کی میوزیکل چیئر کا ڈھائی سالہ کھیل، جس میں کارکردگی صفر مگر پھر بھی ڈھٹائی کے ساتھ اچھی کارکردگی کا حکومتی دعویٰ۔
حکومتی بدنظمی کاتازہ واقعہ کالعدم جماعت ٹی ایل پی کے ساتھ وعدہ خلافی اور نتیجے میں بدترین خونریزی کاہے اگرچہ معاملہ بڑا سادہ تھا مگر حکومت کی جانب سے اپنی روایتی نااہلی کا ایک بار پھر بھرپور مظاہرہ کیا گیا، ماضی قریب میں حکومت نے شاید "ڈنگ ٹپاؤ" پالیسی کے تحت اس کالعدم جماعت کے ساتھ معاہدے کیے تھے جو اس بات کا ثبوت تھے کہ حکومت بادی النظر میں ان سب مطالبات کی حامی ہے۔ معاہدے کی ڈیڈ لائن نزدیک آ رہی تھی کہ اچانک سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو اپلوڈ ہوئی جس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ کس طرح سے پولیس نے مولانا سعد رضوی کو گھیرا ڈال کرگرفتار کیا۔ بس اس ویڈیو کا اپلوڈ ہونا تھا کہ سارے ملک میں دھرنوں کا موسم آگیااورعاشقان رسول میدان عمل میں آگئے۔ ٹی ایل پی کا نعرہ "لبیک لبیک لبیک یا رسول اللہ" جو اپنی دلفریبی، نغمگی اور عشق مصطفیﷺٰ کی بدولت ہر مسلمان کے دل کی پکار بن چکا ہے چنانچہ حافظ سعد رضوی کی گرفتاری پرسادہ دل اور دنیا کی غلاظتوں میں لتھڑے بے ایمان اور ظالم لوگ بھی اس نعرے کو نظر انداز نہ کر سکے کیونکہ معاملہ اُن کے نبی پاکﷺ کی ذات اقدس کا تھا اور وہ جانتے تھے کہ اللہ کی قربت کا راستہ نبی پاکﷺ کی ذات مبارکہ سے ہو کر گزرتا ہے۔
احتجاج کے ابتدائی دنوں میں اگرچہ بے شمار جانی اور مالی نقصان ہوا مگر اللہ پاک کا شکر ہے کہ حکومت وقت نے"دیر آئے درست آئے"مناسب فیصلہ کرتے ہوئے عاشقان مصطفیٰﷺ کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کیا اور پھر اسی دن قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کو نکالنے کے حوالے سے ایک قرارداد کو بحث کے لیے منظور کر لیاگیا۔ امید کی جاتی ہے کہ اہل حکمران اور ٹی ایل پی کے اکابرین باہمی مشاورت سے مستقبل میں ایسے اقدامات اُٹھائیں گے کہ جن سے پوری دنیا میں ہماری نبی کی شخصیت کا "رحمتہ العالمین" والا روپ سامنے آئے گا اور اس کے ساتھ ساتھ سب اسلامی ممالک مل کر غیر مسلم دنیا کو اپنے مذہب کی درست تصویر پیش کرنے میں کامیاب ہوں گے اور اس طرح اچھی اور بہتر منصوبہ بندی سے مستقبل میں اپنے دین اور پیغمبر کی حرمت کی حفاظت یقینی بنائیں گے۔