Mumkina Fitna Qadian Aur Uss Ka Behtareen Tadaruk
ممکنہ فتنہ قادیان اُور اس کا بہترین تدارک
حکومت کی جانب سے ممکنہ اشارے کو بنیاد بنا کر قادیانیوں کو اقلیت مانتے ہوئے اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کی ممکنہ شمولیت پر مذہبی حلقے بھی غضب ناک دکھائی دیتے تھے نیزعام پاکستانی شہری کا رد عمل بھی مذہبی جماعتوں سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ حکومت جُو اس وقت "کورونا" کی وجہ سے زبردست دباؤ میں کھیل رہی ہے اُور"کورونا" کے مرض نے ساری دنیا کی طرح پاکستانی معیشت کو بھی جوناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی کرنے کی حکومت کی طرف سے بھرپور کوشش بھی ہو رہی ہے۔ اب سمجھ اس بات کی نہیں آتی کہ جب پاکستان میں لوگوں کا روزگار بند ہے، کاروبارحیات پر پابندی ہے، محدود نقل و حرکت کی اجازت ہے نیزسرکاری و پرائیویٹ ادارے ابھی مکمل کام کرنا شروع نہیں ہوئے تو اس نازک موقع پر قادیانیوں والا مسئلہ چھیڑنے کی کیا تُک بنتی تھی؟ کیا پی ٹی آئی کے اندر سے میر جعفر اُور میر صادق اپنا کام دکھا رہے ہیں؟ کیاکسی گروہ کی جانب سے عمران خان اُور مقتدر حلقوں کی جانب سے سخت احتساب کے عمل کو ناکام بنانے اُور رکاوٹ ڈالنے کی کوشش تو نہیں کی جا رہی؟ کیا اسلام دشمن قوتوں کی جانب سے اپنے مقامی ایجنٹوں کوپاکستان میں مذہبی منافرت کا بیج بونے کی ذمہ داری تو نہیں سونپ دی گئی؟ کیا پاکستان کے اسلامی ممالک میں بڑھتے ہوئے عمل دخل کو محدودکرنے اُور سی پیک کو رول بیک کرانے کی عالمی سازش تو تیار نہیں کی گئی؟
براداران اسلام!ایسے سوالات تو بہت سے ہیں مگر دُوسری جانب وزیر اعظم پاکستان کی بھی بھاری ذمہ داری تھی کہ وہ اس حقیقت کو جان لیں کہ پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ملک ہے جس کی بنیاد ہی لاالہ الا اللہ پر رکھی گئی تھی۔ سنی مسلمانوں کی اکثریت والا ملک جہاں تمام مذہبی مسالک مختلف فقہی مسائل میں اختلافات کے باوجود اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت محمدﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں اُور اُن کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔"لانبی بعدی" اُن کے ایمان کا حصہ اُوراپنے نبی ﷺ سے محبت مسلمانوں کے ایمان کا لازمی جزو ہے۔ مسلمان نبی پاکﷺ سے محبت کے اظہار کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ حضور اکرم ﷺ کی وفات کے بعد بھی ایسا ہی فتنہ اُٹھا تھا تب حضرت ابوبکرؓ نے سات سو سے زائد حفاظ اکرام کی شہادت دے کر اسلام کو اس فتنے سے بچایا تھا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد سے شر پسند عناصر کی جانب سے ایسی کئی مذموم سازشیں کی گئیں اُور قادیانیوں کو سہولتیں دینے کا در پردہ کام بھی کیا جاتا رہا مگر جب بھی پاکستانی غیور قوم اُور علماء حق کو اس بات کی بھنک ہوئی تو عوامی احتجاج کے خدشے پر کام روک دیا جاتا تھا۔ اب ایک بار پھرقادیانیوں کو اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے پرمختلف عوامی اُور مذہبی حلقوں کی جانب سے متضادآراء سامنے آرہی تھیں کچھ حلقے اس اقدام کو تسلی بخش قرار دے رہے تھے اُور پُر امید تھے کہ اس اقدام سے کسی بھی طرح قادیانیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ ہمارا آئین پہلے ہی قادیان ایکٹ کی بنیاد پر قادیانیوں پر مختلف بندشیں لگاتا ہے جبکہ اکثریت کا خیال تھا کہ یہ سلسلہ یہاں تک نہیں رکے گا بلکہ پھر قادیانیوں کو عبادت گاہیں بنانے کی بھی اجازت ہوگی، تبلیغ کرنے کی بھی آزادی ہو گی، دُوسری اقلیتوں کی طرح مذہبی سرگرمیوں کی بھی کھلی چھوٹ مل جائے گی، ہماری اذان سے ملتی جلتی آواز برائے عبادت پر ممانعت ختم ہو جائے گی اُور اس طرح کی دیگر سرگرمیاں بھی شروع ہو جائیں گی جن کی ابھی تک قادیانیوں کو آئین پاکستان اجازت نہیں دیتا۔ اس کے علاوہ جب قادیانی اقلیت قرار دئیے جائیں گے تو وہ اسمبلیوں کے ممبر بھی بنیں گے، مختلف سرکاری اُور نیم سرکاری اداروں میں بھی ایک مخصوص کوٹے کے تحت ملازمت بھی حاصل کر سکیں گے۔ یوں وہ پاکستانی سیاست اُور معیشت پر براہ راست اثر انداز ہو سکیں گے اُور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آج کی اقلیت آہستہ آہستہ کل کو ایک فیصلہ کُن حیثیت اختیار کرسکتی ہے۔
ایک محب وطن پاکستانی بحیثیت مسلمان اس طرح کے خدشات پر پریشان اُور سخت طیش و غصہ کی حالت میں تھا۔ اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ حکومت کوئی بھی ایسا کام کرنے سے پہلے عوامی رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے سب مذہبی حلقوں سے بات چیت کرتی۔ جید علماء اُور مفتی حضرات سے رابطہ کر کے ایک علماء و فقہاکمیٹی بنائی جاتی جس میں اس پر کھل کر بات کی جاتی اُور پھر سارے مسئلے کو سوچ بچار کرنے کے بعد عوام کے سامنے رکھا جاتا۔ علماء عوام کو اصل حقیقت سے آگاہ کرتے تاکہ فیصلے کے بعد کسی بھی قسم کی بد نظمی اُور انتشار سے بچا جا سکتا۔ لیکن بعض شرارتی لوگوں نے اس معاملے کو بغیر تصدیق کے عوام میں پھیلا دیا اُور اس خبر سے تمام ملک میں جیسے بھونچال سا آگیا تھا۔ حکومت نے اس بار عمدہ قدم اُٹھایا اُور مزید انتشار پھیلنے سے پہلے ہی سارا قصہ تمام کر دیا۔ اب ہر طرف سے"مبارک ہو مبارک ہو" کی صدائیں بلند ہونے لگی ہیں۔ وزارت مذہبی امور نے کابینہ کو سمری ارسال کر دی ہے کہ قادیانی نہ تو کوئی مذہب ہے اُور نہ اس کی کوئی تاریخی حیثیت ہے۔ اس لیے قادیانی اقلیتی کمیشن میں شامل نہیں ہو سکتے۔ عوام نے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اگرچہ عوام کو پہلے ہی اُمید تھی کہ مدینے کی ریاست بنانے والا حکمران عمران خان کسی بھی قسم کے اندرونی یا بیرونی دباؤ کے بغیر ایک مسلمان ہونے کے ناتے کوئی بھی ایسا قدم نہیں اُٹھائے گا جو ہمارے اسلامی احکام اُور بنیادی ارکان اسلام سے تصادم رکھتا ہو۔ ختم نبوت زندہ باد۔ تاجدار مدینہ زندہ باد۔