Mulk Mein Anarchy Phailane Ka Khatarnak Mansooba
ملک میں انارکی پھیلانے کاخطرناک منصوبہ
پاکستانی سیاست کا المناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کواسلامی معاشرے میں رہتے ہوئے اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ دنیا کی چالبازیوں کو بھی ذہن میں رکھنا پڑتا ہے اس دوہرے معیار نے قوم کو نمونے ہی دیئے ہیں جودلوں میں بغض، پیٹ میں حرام اور کعبہ کا طواف پر طواف۔ کعبہ خود چکر میں ہے کہ یہ لوگ کس چکر میں ہیں اور یوں چند دنوں میں ہی ان اچھے انسانوں کی اخلاقی قدریں اور انسانیت کا درد، سیاسی رنگ بازیوں کی نظر ہوجاتا ہے۔
سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟
جو سچ کہو ں تو بُرا لگے، جو دلیل دوں تو ذلیل ہوں۔ یاد رہے یہ سماج جہل کی زد میں ہے، یہاں حق بات کرنا حرام ہے۔ منافقت کا بازار سجاہے، بکنے کو سب تیار کھڑے ہیں۔ اقتدار کے پرانے کھلاڑی چال عمدہ چل چکے ہیں اب دانہ ڈال کر پنچھیوں کا انتظار ہے۔ کیا چال سامنے سے آتی ہے، بات ادھر ہی اٹکی ہے۔ چچا چھکن کی بیماری کی طرح اس کھیل کے سب کھلاڑیوں نے اپنی اپنی پٹاریاں چھپا رکھی ہیں۔ ضمنی انتخابات کے نتائج کو جس خوفناک انداز میں پیش کیا جارہا ہے اور ٹی وی ٹاک شوز میں حکومتی موقف پر اپوزیشن کا بیانیہ جس طرح غالب آرہا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نون لیگ پاکستان میں سیاست کے مناظر کو اپنی مرضی کے رنگ دینے کی ماہر ہے۔ کوئی مقابل نہیں دور دور تک۔ ڈسکہ کے الیکشن کے ساتھ ملک میں ہونے والے دیگر ضمنی انتخابات میں اگرچہ مجموعی طور پر پی ٹی آئی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر کسی جگہ پر بھی اپوزیشن کو اعتراض نہیں سوائے ڈسکہ کے۔ وجہ آپ خود جانتے ہیں کہ اس بار حکومتی امیدوار بہتر منصوبہ بندی سے میدان میں اُترا تھا جبکہ نون لیگ اپنی آبائی سیٹ پر شکست کا لیبل اپنی پیشانی پر سجانے کو تیار نہ تھی۔ اقتدارکا نشہ، چیز ہی ایسی ہے کہ نہیں چھوٹتی ظالم منہ کو لگی ہوئی۔ مسند اقتدار پر آسمانوں کی بلندیاں بھی پست نظر آنے لگتی ہیں، پہاڑ بھی بونے دکھائی دینے لگتے ہیں، راحت وسرور کی زندگی میں مخملی لباس بھی چبھنے لگتے ہیں چنانچہ منصوبہ بندی سے ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں کچھ ایسا ڈرامہ رچایا گیا کہ ہر طرف سے حکومت پر آوازیں اُٹھنا شروع ہو گئیں۔ اس شور سے لگتا ہے کہ ایک کمزور سیاسی حکومت کے بد مست قدم ڈولنا شروع ہوگئے ہیں۔
پی ٹی آئی کی سیاسی اور تنظیمی کمزوریاں اندر ہی اند ر جڑیں پکڑنے لگیں ہیں جو اچھا شگون نہیں ہے۔ چند دن پہلے وزیر اعظم کے KPK دورے پر پندرہ سے زائد ارکان اسمبلی کا شرکت نہ کرنا، بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ مختلف صوبائی قیادتوں کا سینٹ کے نامزد ناموں پر اعتراضات، پارٹی ارکان کا ٹی وی ٹاک شوز میں ایک دوسرے پرالزامات، نوشہرہ کا انتخاب اورفارورڈ بلاک جیسی تلخ حقیقتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اب عمران خان کو ریگستان پر نخلستان کا گمان کرنا، خود فریبی کا شکار ہونا، خود ستائشی کا نشہ اورظل سبحانی کی اکڑ کو ختم کرنا ہوگاکیونکہ اس باراپوزیشن کی یلغار کو روکنا آسان کام نہیں۔ وہ سب اپنے مال و آل کی حفاظت کی قسم کھا کر میدان میں اُترے ہیں۔ آہ! کیا حرص ہے اس انسان کی، اس کی اپنی کوئی حیثیت بھی نہیں ہوتی مگرپھر بھی؟ ؟ ۔ پل کا پتا نہیں اور صدیوں کا سامان اکٹھا کرتا پھرتا ہے۔ موجودہ اپوزیشن کو اپنی کرپشن ثابت ہونے پربڑا خطرہ پابند سلاسل ہونا ہے کیونکہ جرائم کی ایک لمبی فہرست ہے۔ جس کی اپوزیشن کی طرف سے نہ کوئی صفائی نہ کوئی گواہی۔ زندگی بچانے کے جتن شروع ہو چکے ہیں ہاتھ پاؤں مارے جا رہے ہیں مگر راہ کوئی نہیں دکھارہا۔
بھاری بھر کم بریف کیس اسلام آباد پہنچ چکے ہیں اسلام آباد کی غلام گردشوں میں مکین سینٹ انتخابات کی سرکس کے اساتذہ پھونک پھونک کرقدم اُٹھا رہے ہیں مبادا وقت سے پہلے پرچہ آ وٹ نہ ہو جائے۔ سنا ہے کہ اس بار ارکان اسمبلی کی جوقیمت لگے گی وہ تاریخی ریکارڈ ہو گا۔ سپریم کورٹ کا سینٹ الیکشن کے حوالے سے فیصلہ بھی اس الیکشن میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اگرچہ معزز عدالت نے اس بات کا عندیہ دیاہے کہ میثاق جمہوریت میں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں سینٹ میں اوپن رائے شماری کے حق میں لکھ چکی ہیں۔ اب دیکھیں!یہ اُونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ نون لیگ نے ڈسکہ کے انتخاب پر ابتدائی طور پر 23 حلقوں پر اعتراضات اُٹھائے تھے جس پر الیکشن کمیشن نے تحقیقات کرنے کے بعد اپنا فیصلہ سنا دیا۔ الیکشن کمیشن کی سفارشات کے مطابق چودہ حلقوں میں دوبارہ پولنگ ہونی چاہیے مگر اب نون لیگ نے پینترا بدلا اور اپنی ممکنہ شکست سے بچنے کے لیے مطالبہ کر دیا ہے کہ پورے حلقے میں دوبارہ انتخاب کروایا جائے۔ یہ ہے ملک میں انارکی پھیلانے کا نون لیگ کاخطرناک منصوبہ جس میں اداروں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کرنا مقصود ہے۔
کُو بہ کوُپھیل گئی بات شناسائی کی
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
دوسری طرف اپوزیشن کی متحرک لیڈرمحترمہ مریم صفدر کو بھی کسی ارسطو نے مشورہ دیا ہے کہ اُن کی بیماری کا علاج بہت ضروری ہے ورنہ ہو جائے گی بہت کمزوری۔ لگتا ہے اب مریم بی بی بھی اس آل بچاؤ اور مال بچاؤ جنگ سے تنگ آچکی ہیں اُن کی شدید خواہش لگتی ہے کہ کچھ ایسا چکرچلایا جائے اور زنجیرجہانگیری کو اس طرح سے ہلایا جائے کہ اُن کا ملک سے باہر جانا ممکن ہو سکے۔ مگر چالاک کاتب تقدیر دور کھڑا مسکراکر بولتا ہے "تیری آہوں پہ مسیحا کو ہنسی آتی ہے"۔