Kash Siasatdan Mulki Idaron Ki Saakh Se Na Khelen
کاش سیاستدان ملکی اداروں کی ساکھ سے نہ کھیلیں
پاکستان کے اُفق پر ان دنوں فروری میں ہونے والے الیکشن کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ یوں تو پاکستان کی حالیہ جمہوری تاریخ میں 2008ء، 2013ء، 2018ء کے الیکشن بھی اہم رہے اور ان پر سیاسی تجزیہ نگاروں اور عوام کی دلچسپی بھی خوب رہی مگر آئندہ ہفتوں میں ہونے والے الیکشن چند وجوہات کی بنا پرزیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں جیسے اس الیکشن میں چند سیاسی جماعتوں کی تائب اور غائب سیاسی قیادتیں حصہ لے رہی ہیں، جبکہ کچھ سیاسی رہنما جیل کے اندر اور کچھ جیل کے باہر سے انتخابات کے دنگل میں شامل ہیں۔
اس بار کی انتخابی جنگ کو "جیسا کروگے ویسا بھروگے اور مکافات عمل" کے بیانیے سے بھی جوڑا جا رہا ہے اور ساتھ ساتھ انتخابی میدان میں"لیول پلیئنگ فیلڈ" کا نعرہ بھی گونج رہا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کی جانب سے انتخابات کے پہلے مرحلے میں شور مچا کہ کاغذات جمع نہیں کروانے دئیے جا رہے، کاغذات چھینے جا رہے ہیں اور ڈرایا جا رہا ہے۔ بغیر تحقیقات کے اس بیانیے سے پورا پاکستانی میڈیا متاثر رہا اور اس بیانیے کے اثر سے عوام کا اداروں پر سے اعتبار کم ہوتا رہا جبکہ حقیقت یہ تھی کہ الیکشن کمیشن کے پاس اُمیدواروں کی جانب سے اس طرح کے معاملات کی ٹوٹل شکایات 50کے قریب درج کرائی گئیں۔ معمولی تعداد میں درج کروائی گئی شکایات، اُس جماعت کے جھوٹے بیانیے سے ہوا نکالنے کے لئے کافی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اکا دُکا واقعات ضرور ہوئے، جو ہمیشہ سے ہوتے آئے ہیں۔
دوسرے مرحلے میں کاغذات نامزدگی کے مسترد ہونے پر خوب واویلا مچایا گیا۔ حقائق بتاتے ہیں کہ 2018ء کے الیکشن میں مجموعی طور پر 2000کے قریب امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے تھے اور اِس بار تمام سیاسی جماعتوں کے 3000کے قریب امیدواران کے کاغذات مسترد ہوئے، یعنی بہت بڑا فرق نہیں جس پر شور مچایا جائے، جبکہ ابھی امیدواروں کے پاس اپیلوں کا حق ہے جس میں وہ الیکشن کمیشن کے اعتراضات کو دور کر سکتے ہیں اور الیکشن ٹریبونل سے بہت سے امیدواران کو ریلیف بھی مل جائے گا۔
کسی بھی سیاسی جماعت کے اس طرح کے منفی بیانیے سے یقینا ملکی اداروں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے چند سالوں سے جاری اس سلسلے کی پہلی ضرب پارلیمنٹ کو لگی، عدلیہ کو نشانہ بنایا گیا، الیکشن کمیشن پر چڑھائی کی گئی اور آخر میں افواج پاکستان پر یلغار کی گئی۔ اگر ہم حقائق کا جائزہ لیں تو سمجھ آتی ہے کہ سیاسی طور پر ناپختہ ذہنوں کی بدولت ہماری ریاست تباہی کی جانب جا رہی ہے اور اداروں کے بارے میں اتنی بے یقینی پیدا کی جا چکی ہے کہ اس وقت ہمارا ملک نیم طوائف الملوکی کی تصویر بنا ہوا ہے۔
پاکستانی سیاست کی بد قسمتی رہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اکثر نعرے اور بیانیے صرف اپنے مفادات کے حصول اور عوامی مقبولیت کے اہداف مکمل کرنے تک محدود رہے ہیں ان نعروں اور بیانیوں میں ہمیشہ عوام کو تصویر کا ایک رُخ دکھا کر بے وقوف بنایا جاتا رہا ہے، چنانچہ ایسے نابالغ سیاست دانوں کو حکومتی اُمور چلانے کے لئے ہمیشہ ریاستی اداروں کی رضا اور معاونت درکار رہی۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھیں تو ہم نے ماضی میں بھی دیکھا ہے کہ جس کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھانا ہوتا ہے اس کی پذیرائی اور مخالف کی ٹھکائی ہوتی رہی ہے۔ اس دفعہ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کی جانب سے جاری حالیہ تُند تیز بیانات اور بے لگام الزامات میں حقیقت کتنی ہے؟ سوچنے کی دوسری بات یہ ہے کہ کیا ماضی کے غلط رویوں کو بنیاد بنا کر آگے بڑھا جا سکتا ہے جبکہ دوسری طرف یاد رکھیں! غلط فیصلوں کا دفاع کبھی بھی مستحسن عمل نہیں ہوتا۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد ملکی تاریخ میں 1981ء ایسا سال تھا، جس میں ایک سیاسی جماعت کے ہم نواؤں نے پاکستانی ہوائی جہاز کو اغوا کرکے ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالاتھا۔ اس اقدام پر سلامتی کے اداروں نے اُس سیاسی جماعت کے خلاف سخت ردعمل ظاہر کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں دوسری بار 9 مئی 2023ء کو سلامتی کے ادارے کے دفاتر اور تنصیبات کو ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں کی جانب سے براہ راست نشانہ بنایا گیا توکیا اس بار ردعمل نہیں آئے گا؟ بالکل آئے گا اور آنا بھی چاہئے۔ اگر کوئی مقبولیت کی دھن پر اپنے پیروکاروں کی سادگی کا فائدہ اُٹھائے گا تو اس کا خمیازہ بھی بھگتے گا۔ ایسی بات نہیں کہ پاکستانی سیاست دان ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف بات نہیں کرتے رہے۔ ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ مختلف سیاسی رہنماء ایسے بیانات دیتے رہے ہیں مگراُن کی تنقید، شخصیات پرہوتی تھی، ادارے کے بارے میں نہیں اور وہ کبھی بھی سلامتی کے ادارے پر حملہ آور نہیں ہوئے۔
حالیہ کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیہ کے بعد افواجِ پاکستان کے سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے نیشنل فارمرز کنونشن میں بھی خطاب کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ ملک کو نقصان پہنچانے والے تمام عناصر کی سرکوبی کی جائے گی اور کسی کو بھی رعایت نہیں دی جائے گی۔ اس بیان کے بعد آئندہ کاپاکستانی سیاسی منظر نامہ کافی واضح ہو جاتا ہے ویسے بھی عقلمدوں کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ دعا ہے کہ کاش ہماری ساری سیاسی قیادت ملکی سلامیت اور عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے باہمی اختلافات کو ختم کر دے اورذاتی مفادات کے لئے اداروں کی ساکھ سے نہ کھیلے۔