Citizen Portal Ko Faal Karen
سٹیزن پورٹل کو دوبارہ فعال کریں
پاکستان میں مختلف ادوار میں ہرعوامی یا فوجی حکومت کی کوشش رہی ہیکہ چند ایسے کام ضرور کرے جن کی وجہ سے عوام کو ریلیف مل سکے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے سب سے پہلے غریبوں کے لیے "روٹی، کپڑا اور مکان" کا نعرہ لگایا پھرملک کے نادار اور غریب لوگوں کی مالی مدد کے لیے "بینظیر انکم سپورٹ پروگرام" متعارف کروایا گیا۔ قاف لیگ نے اپنے دور میں بے شمار ترقیاتی کام کروانے کے علاوہ "1122" جیسے فوری حادثاتی ریلیف والے محکمہ کی بنیاد رکھی۔ اس کے علاوہ ملکی ضرورت کے تحت ٹریفک وارڈنز کی فورس بنائی گئی جس سے پڑھے لکھے نوجوانوں کو ایک اچھا روزگار ملا۔ نون لیگ نے اپنے دُور میں "پیلی ٹیکسی" جیسی کامیاب روزگار سکیم نکالی پھرنون لیگ نے آسان عوامی سواری"میٹرو" کاآغاز کیا۔ پی ٹی آئی حکومت نے مسافروں کے لیے عارضی رہائش گاہ "پناہ گاہ" کے نام سے اچھے کام کا آغاز کیا۔ ضرورت مند اور کم آمدن والے لوگوں کے لیے صحت کارڈ، احسا س پروگرام اور بے گھر افراد کے لیے گھر سکیم بھی پی ٹی آئی حکومت کے اچھے اقدامات ہیں۔
اس طرح کے عوامی منصوبے ثابت کرتے ہیں کہ ہر حکومت کسی نہ کسی انداز میں اور اپنے منشورکے مطابق عوام کو ریلیف دینے کے موڈ میں رہی ہے۔ اس بات کا ادراک تقریباً سب حکومتوں کو رہا ہے کہ حکومت کا کام لوگوں کی فلاح کے لیے پروگرام بنانا ہوتا ہے جبکہ ان منصوبوں پر عمل درآمد بیوروکریسی نے کرنا ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے غلامی کے دُور سے مستعار لی گئی کئی قباحتیں ابھی تک ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور ان آلائشوں کا سب سے زیادہ شکار ہماری بیوروکریسی نظر آتی ہے۔ ہماری بیوروکریسی نے ہمیشہ نالائق سیاسی قیادتوں کو اپنے کندھے کا بھرپور سہارا دے کر اقتدار کی طوالت کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ انگریزوں کی شان و شوکت کے گرویدہ یہ دیسی بابو، "ولایتی صاحب" بنے مصنوعی کروفر کا شکار ہیں اور خود کو عوامی نوکر کی بجائے "وائسرائے" سمجھے بیٹھے ہیں۔ انگریز آقاؤں نے اپنی ضرورت اور حاکمیت کا رعب جمانے کے لیے جو قوانین بنائے وہ ستر سال کے بعد بھی جوں کے توں موجود ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے برسراقتدار آتے ہی نظام میں بہتری لانے کے لیے پرائم منسٹر سٹیزن پورٹل بنائی جس کا بنیادی مقصد بد عنوان اور کرپٹ سرکاری افسران کے خلاف کریک ڈاؤن آپریشن کرنا تھا اس کے علاوہ پورٹل کا مقصد لوگوں کے مسائل کی نشاندہی اور آگاہی کے بعداُن کے حل کے لیے فوری اقدامات اُٹھانا بھی تھا۔ اس بیمار اور خارش زدہ معاشرے میں عمران خان جیسے لیڈر کا مسند حکمرانی پر بیٹھنا ہی کیا کم تھا کہ موثر پورٹل نے ساری بھوکی اور خود غرض اشرافیہ کی صفّوں میں کھلبلی مچا دی۔ سب زرداروں، ٹھیکہ داروں، رسہ گیروں، بدمعاشوں، سیاسی و سرکاری اداکاروں اور جوکروں کو اپنی لُٹیا ڈُوبتی نظر آنے لگی۔ افسران مستقبل میں اپنی ڈیڑہ اینٹ کی سلطنت خطرے میں دیکھ رہے تھے جبکہ دوسری طرف پاکستانی عوام نے خوشیاں منائی۔ اس بدلتی صورتحال میں بد کردار اور کرپٹ سرکاری و غیر سرکاری افسران عوامی بیداری، حکومتی دلچسپی اور کیمرے کی چھپی آنکھ کے ڈر سے اپنے معاملات کو درست کرتے نظر آئے۔ سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ایماندار اُور دیانت دار افسران کو بھی حوصلہ ملا اور اُمید کی ایک روشن کرن نظر آئی کہ اب اُن کو کوئی کرپٹ اور بد عنوان افسر تنگ نہیں کر سکے گاکیونکہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کب کوئی کرپٹ افسر اپنی بد عنوانی کے عمل کے دُوران کسی بھی کیمرے کی کھلی آنکھ یا موبائل فون کی ریکارڈنگ کا شکار ہوکر کسی پیشی یاانکوئری کے لیے بُلا لیا جائے۔
ابتدائی چند مہینوں میں اس پورٹل کے فوری ایکشنز اور رپورٹس نے سرکاری دفاتر کی بے لگام کرپشن کو نکیل ڈالے رکھی اور عوام بھی اس کے نتائج سے مطمئن رہے۔ معاملات حل ہونے میں اگرچہ وقت لگتا تھا مگر لوگوں کو یقین ہوگیاتھا کہ ظلم اور نا انصافی کے خلاف اُن کی شکایت رائیگاں نہیں جائے گی۔ مگر رفتہ رفتہ مفلوج اور اپاہج پاکستانی نظام اوراخلاق سے عاری اور غلامانہ سوچ کی حامل بیوروکریسی کی نظر بد نے اس متحرک سسٹم کو دیمک کی طرح چاٹناشروع کر دیا۔ چونکہ سرکاری افسران ایک دُوسرے کے بھائی ہوتے ہیں اور جانتے ہیں کہ"اس حما م میں سب ننگے ہیں" چنانچہ وہ عموماً اس پورٹل پر درج کروائی گئی شکایات کو مناسب کاروائی کیے بغیر ہی داخل دفتر کر دیتے ہیں اور اس طرح بالواسطہ ایک دوسرے کی پردہ داری کا سلسلہ ماضی کی طرح حال میں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ آہستہ آہستہ نیک فطرت وزیر اعظم کے دئیے گئے احتسابی سسٹم کو اپنی مرضی کے معیار اور درجے پر لے آئے ہیں اور اب یہ وقت آگیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ادارے یا کرپٹ عناصر کی نشاندہی کرتا ہے تو چیونٹی کی چال کی مانند رینگتی احتسابی پورٹل اب اتنا زیادہ وقت لیتی ہے کہ شکایت کنندہ مایوس ہو کرخود ہی فالواپ کرنا چھوڑ دیتا ہے یوں اس پورٹل کا بنیادی مقصدہی فوت ہو گیا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم کا روشن پاکستان کافی حد تک اس سٹیزن پورٹل کے فعال کردار سے منسلک ہے۔ جب ایک سائل کو مسئلے کا فوری حل ملے گا تو عام آدمی کے دل میں یہ اُمید ضرور جاگے گی کہ وہ اس "کرپشن مکاؤ تحریک" کا ممبر بن کر اپنے ملک و قوم کی بہتر انداز میں خدمت کر سکتا ہے اُور یوں حکومت کے لیے انصاف فراہم کرنا آسان ہوجائے گا۔ وزیراعظم عمران خان کو دوبارہ سے پورٹل کے فعال کردار کو بحال کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش کرنا ہوگی تاکہ عوام اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھا سکیں۔