9 May Ko Redline Cross Ho Chuki?
نو مئی کو ریڈ لائن کراس ہو چکی؟
ایسٹیبلشمنٹ عام طور پر پاکستان میں استعمال ہونی والی ایک عام اصطلاح ہے۔ ایسٹیبلشمنٹ سے مُراد افراد کا ایک ایسا گروہ جو درحقیقت پس پردہ رہ کر پاکستان کی سیاست، دفاع اور جوہری پروگرام کے پالیسی ساز فیصلوں کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان کے جوہری منصوبوں بلکہ سیاست، دفاعی بجٹ اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو بھی اپنے مروجہ نظریہ اور ضرورت کے مطابق استعمال کرتا ہے۔
پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ کی جامع تعریف سٹیفن پی کوہن نے اپنی کتاب "آئیڈیا آف پاکستان" میں کی ہے سٹیفن کوہن کے مطابق پاکستان کی یہ قوت دراصل درمیانی راستے کے نظریہ پر قائم ہے اور اس کو غیر روایتی سیاسی نظام کے تحت چلایا جاتا ہے جس کا حصہ فوج، سول سروس، عدلیہ اور اہمیت کے حامل سیاسی و غیر سیاسی افراد ہیں۔ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کو ایک پولیٹکل ایلیٹ گروپ کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
پاکستان میں طاقتور اشرافیہ کے جو گروپس ہیں اُس میں ایک پولیٹیکل سائیڈ ہے اور ایک ریاست کی سائیڈ ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں طاقتور اشرافیہ کا بڑا گروپ پاکستان کی فوج سے تعلق رکھتا ہے، اگر ہم تاریخ کا تھوڑا سا مطالعہ کریں تو پاکستان کی سیاسی تاریخ کی پہلی باضابطہ مفاداتی سیاسی رسہ کشی کے نتیجے میں وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو 1953ء میں گورنر جنرل چوہدری غلام محمد نے ایوب خان کی مدد سے فارغ کر دیا تھا۔ انہیں ایک ایسے وقت میں عہدے سے ہٹایا گیا جب وہ کچھ عرصہ پہلے اسمبلی ارکان کی سپورٹ سے بجٹ بھی منظور کرواچکے تھے۔
قیوم نظامی اپنی کتاب "جرنیل اور سیاست دان۔ تاریخ کی عدالت میں" میں لکھتے ہیں چونکہ خواجہ ناظم الدین ایک نئے دستور کی تیاری میں تھے جس کی رُو سے گورنر جنرل کے اختیارات میں کمی اور فوج کے حجم کو محدود کرنا مقصود تھا نیز وہ ایوب خان کو توسیع دینے کے حق میں بھی نہ تھے چنانچہ اُن کی معزولی ضروری سمجھی گئی۔ قیام کے ٹھیک گیارہ سال بعد ملک عزیز پر پہلا مارشل لاء لگایا گیا جس کے بارے میں قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب "شہاب نامہ" میں لکھتے ہیں کہ اُس وقت پاکستان اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار نہیں تھا لہذا آئین کی منسوخی کا کوئی جواز نہیں تھا۔
معروف صحافی قیوم نظامی کے بقول ایم آئی نے سکندر مرزا کی ایک ٹیلی فون گفتگوٹیپ کرکے ایوب خان کو سنائی تھی جو مارشل لاء کا سبب بنی۔ امریکی سیکریٹری چند دن کے بعد پاکستان آ رہے تھے لہذا دورے کے اختتام کے فوراً بعد ایوب خان نے صدر سکندر مرزا کو صدارت سے ہٹا دیا۔ ایم اے چوہدری اپنی کتاب "مارشل لاء کا سیاسی انداز" میں لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے آئین کی تشکیل کے بعد کہا تھا کہ آج ہمیشہ کے لیے مارشل لاء کا راستہ روک دیا گیا ہے مگر کس قدر افسوس کی بات ہے کہ مارشل لاء نے ہی انہیں عہدے سے ہٹایا اور دفن کیا۔ جنرل ضیا الحق نے بلا شرکت غیرے ایک لمبے عرصے تک حکومت کرنے کے بعد جب غیر جماعتی جمہوری نظام متعارف کروایا تو اس نظام میں وہ محمد خان جونیجو جیسا شریف انسان بھی برداشت نہ کر سکے۔
طاہر کامران، اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ضیا کی جانب سے جونیجو کو ہٹانے کی اہم وجوہات جونیجو کا جنرل ضیا کی خواہشات کے برعکس جنیوا معاہدہ پر دستخط کرنا اور راولپنڈی میں اوجڑی کیمپ کے واقعے کے ذمہ دار فوجی افسروں کو موردِ الزام ٹھہرانا تھیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکمرانوں کے مابین اختلافات کا نتیجہ کبھی بھی سیاسی حکمرانوں کے لیے اچھا نہیں رہا، ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا جونیجو، میاں نوازشریف ہوں یا بے نظیر اور یوسف رضا گیلانی ہوں یا پھر عمران خان۔ لیکن اگر ہم اپنے سیاست دانوں کی بات کریں تو ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہاں وہی سیاستدان کامیاب ترین ہے جو جھوٹ بولنے میں ماہر ہے بد قسمتی سے آج تک ہماری ساری سیاست جھوٹے نعروں پر کی جاتی رہی ہے۔
ان نعروں میں اسلام، جمہوریت، غریب عوام اور ملک میں تبدیلی جیسے موضوعات اہم ہیں مثلاً بعض مذہبی سیاسی جماعتوں نے اسلام کا نعرہ صرف ایوانِ اقتدار تک پہنچنے کے لیے ایک بہانہ بنا رکھا ہے۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کی طرف سے روٹی، کپڑا اور مکان کے علاوہ پیلی ٹیکسی، قرض اُتارو، ملک سنوارو اور تبدیلی کا نعرہ بلند کیا جاتا رہا، غریب عوام کے حقوق کے نعرے بھی لگے، مگر غریب عوام کے کندھے صرف مسند اقتدار پر پہنچنے کے لیے تھے۔
ملک کے کسی حاکم نے غریب عوام کی اقتدار کے اندر شراکت یقینی نہ بنائی۔ اِسی طرح جمہوریت کے نعرے بھی لگتے ہیں مگر یہ بھی ایک دھوکہ ہے مسندِ اقتدار اور پارلیمنٹ میں پہنچنے کے لیے وگرنہ سیاسی جماعتوں کی قیادتیں اپنی جماعتوں میں ڈکٹیٹر شپ کی بدترین مثال قائم کئے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک میں احتساب کا نعرہ بھی لگتا ہے مگر صرف دوسروں کے لیے۔ خود کو ہر قسم کے احتساب سے بری الذمہ سمجھا جاتا ہے۔
اب ہم 9 مئی کے واقعہ کی بات کرتے ہیں گزشتہ سال نو مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے جن کے دوران نجی و قومی املاک سمیت فوجی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ اِن واقعات میں کور کمانڈر ہاؤس (جناح ہاؤس) لاہور جلانے اور جی ایچ کیو میں توڑ پھوڑ کے علاوہ میانوالی، مردان اور کراچی سمیت دیگر کئی شہروں میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیاپشاور کے تاریخی اہمیت کے حامل ریڈیو سٹیشن کو بھی جلا دیا گیا۔
دوسری عالمی جنگ سے پہلے ریڈیو کے موجد مارکونی نے بذاتِ خود اس ریڈیو سٹیشن میں پہلا ریڈیو ٹرانسمیٹرنصب کروایا تھا۔ اِس سانحے پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ 9 مئی کو جی ایچ کیو، جناح ہاؤس کی سکیورٹی اور تقدس برقرار رکھنے میں ناکامی پر ایک لیفٹیننٹ جنرل سمیت تین افسروں کو نوکری سے برطرف کر دیا گیا ہے جبکہ تین میجر جنرلوں اور سات بریگیڈیئروں سمیت 15 افسروں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی گئی ہے اْنہوں نے مزید کہا کہ فوج کے خود احتسابی عمل میں کسی عہدے یا معاشرتی حیثیت میں کوئی تفریق نہیں رکھی جاتی۔
دوسری جانب اگر ہم پاک فوج کے پیشہ ورانہ فرائض کی بات کریں تو افواجِ پاکستان نے ملکی امن قائم کرنے کی خاطر دہشت گردوں اور اْن کے سہولت کاروں کے خلاف ہزاروں چھوٹے بڑے انٹیلی جنس آپریشن کیے ہیں جن میں ہزاروں دہشت گردوں کو جہنم واصل یا گرفتار کیا گیا۔ پاک فوج کے سینکڑوں افسروں اور جوانوں نے ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا جس پر پوری قوم بہادر سپوتوں اور اْن کے لواحقین کو زبردست خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔
غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو 9 مئی کا سانحہ بلاشبہ پاکستان کے خلاف بہت بڑی سازش تھی اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اِس سانحے کی منصوبہ بندی گزشتہ کئی ماہ سے چل رہی تھی پہلے اضطرابی ماحول بنایا گیا لوگوں کے جذبات کو اشتعال دلایا گیا فوج کے خلاف بیانیہ بنایا گیا ملک کے اندر اور باہر بیٹھ کر جھوٹ اور مبالغہ آرائی پر مبنی بیانیہ سوشل میڈیا پر پھیلایا گیا اور اس شرانگیز بیانیے سے پاکستانی لوگوں کی ذہن سازی کی گئی۔
یہ واقعہ انتہائی قابلِ مذمت اور پاکستان کی تاریخ کا سیاہ باب ہے، اِس نے ثابت کردیا کہ جو کام دشمن 76 برس میں نہ کر سکا وہ مٹھی بھر شرپسندوں اور اْن کے سہولت کاروں نے کر دکھایا۔ یاد رکھیں! ریڈلائن صرف فوج کی نہیں ہوتی بلکہ ریاست کی بھی ہوتی ہے اور فوج کی تنصیبات اور گھروں پر حملہ کسی بھی ملک کی فوج کے لیے قابلِ قبول نہیں اورریاست اسے کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کرسکتی۔ اس وقت ریڈلائن کراس ہو چکی ہے۔