Raoonat
رعونت
آج تک کون سی رعونت ہے جس پر وقت نے خاک نہ ڈالی ہو کون ایسا بچا جس نے خدائی لہجہ اختیار کیا ہوا اور عزت مند ٹھرا ہو جناب کوئی بھی نہیں بچے گا یہ والا بھی اور وہ والا بھی چھوٹا بھی اور بڑا بھی وقت ہر متکبر کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا کرتا ہے اور تاریخ ایسوں کو تاریکی ہی کہتی رہی ہے۔ انداز تکلم دیکھئے انداز تخاطب کا مشاہدہ کیجئے لفظ دیکھئیے ان کے معانی آنکھوں سے ٹپکتی شیطانیت اور عیاری ملاحظہ ہو اور طنزیہ مسکراہٹیں جیسے یہ سدا رہنے والی مخلوق ہے جسے کبھی زوال نہیں ہونا ان کے ہاں۔ تمیز ادب واحترام حفظ مراتب، رشتہ، تعلق، سماج، دین مذہب سب ہیچ ہے۔
ان کی گفتگو سے گھن آتی ہے تعفن پھیلاتی زبانیں اور نفرت کے تیربرساتی زبانوں کی لمبائی ناپنا دشوار ہے مگر اصرار اس بات پر ہے کہ ہم نئے ہیں تبدیل شدہ ہیں ہم مسیحا ہیں، خیر خواہ ہیں، غریبوں کی لاچاری ہمارا مسئلہ ہے ان کی پسماندگی ہمیں بے چین رکھتی ہے ہم ان کو چھت اور روٹی دینے کیلئے تن من دھن لگا رہے ہیں۔
ارے ظالمو تمہارے سبز باغ تمہارے بے بنیاد دعوے تمہاری کہ مکرنیاں تمہاری طفل تسلیاں تمھارے جھوٹ تمہاری بدزبانیاں اور بدکلامیاں کسی لبادے میں پوشیدہ نہیں ہو سکتیں تم تو کب کے کھل چکے تمہارے عمل نے قوم کو بیچ چوراہے لا کھڑا کیا جسمانی بیماروں کی ترقی تم نے انہیں زہنی بیمار بنا کر پوری کر دی تمہاری نیت کا ہم نے اچار ڈالنا ہے کیا؟
تم ہینڈسم رہو انگریزی روانی سے بولو بنا دیکھے تقریر کر لو یا این آر او نہ دینے کا ورد کرتے رہو بھوک بیروزگاری اور بیماری کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے، تم پانچ سال پورے کرنے کیلئے لائے گئے ہو یا پانچ سال کچھ کام کرنے کیلئے سال تو پورے ہو ہی جائیں گے افغانستان میں بھی وقت رکا نہیں رہا تھا پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بھی گھڑی کی ٹک ٹک مسلسل جاری رہی تھی مگر تم تو قوم کو برابر مسل رہے ہو اس کا برادہ بناتے جا رہے ہو یہ اکیس کروڑ تمہاری رعایا ہیں غلام نہیں کاش انہیں۔ غلاموں جتنی سہولت ہی میسر آ جاتی تو کم از کم بھوک سے تو نہ مرتے۔ تم نے ریاست مدینہ بنانی تھی اس مقدس ریاست کا لیبل لگا کر ظلم وجبر کی رقم داستانیں راقم سیاہ ترین رت کے طور ہی محفوظ کرے گا دنیا کی ماڈل ریاست کو اپنی طرز حکمرانی سے تم نے رسواء کیا۔
محض اسلئے کہ تمہارے زلفی و زیدی پل سکیں تمہارے فواد و فیاض پنپ سکیں تمہارے ترین و کیانی کی سات نسلیں آسودہ رہیں تمہارا حلقہ احباب شادو آباد رہے، ارے نادانو تم تو ایک پیج پر ایسے چڑھے کہ عوام والا پیج یاد ہی نہ رہا تمہارا بھی کیا قصور تم سے کیا گلہ کہاں کا شکوہ کہ تم تو بقول مخالفین لائے گئے ہو کہ تم قومی یک جہتی کو پارہ پارہ کر سکو ہر ایک کو دست وگریباں کر دینے کا زمہ سر انجام دے سکو ایٹمی ریاست کو کوڑی کوڑی کا اس طرح محتاج کر سکو کہ اس کا ایٹم بے اثر اور بیکار ہو کر رہ جائے۔
اگر یہ نہیں تو پھر اورکیا؟ تم نے کیا نیا کیا؟ تم نے گالیاں دریافت کر کے مخالفین کی تضحیک کا زمہ ادا کیا، تم نے معصوم بچوں کے سامنے والدین کو چھلنی کیا، تم نے موٹر وے پر سفر کو ڈراؤنا خواب بنا دیا، تم نے معصوم پھولوں کو مسل دینے والے پیدا کئے، تم عزتوں کی حفاظت نہیں کر سکے تم بھوک ننگ کا علاج کرنے والے تھے ہی نہیں تمہیں۔ سرحدوں اور جغرافیے سے کچھ سروکار تھا ہی نہیں، تمہارا اور تمہارے لاڈلوں کا سافٹ وئیر ہنر مندوں نے ایسے اپڈیٹ کیا کہ اس میں حمیت نامی کوئی شے بچی ہی نہیں۔
تم آج محفوظ ٹھکانوں عالی شان محلوں بم پروف پر آسائش گاڑیوں والے ہو ریاست کی قوت اپنی اور محدود اپنوں کی فلاح و بقاء کیلئے ہی استعمال کر رہے ہو تمہارے کان بند اور زبانیں کھلی ہیں، تمہارے دعوے تمہارا تکبر اس بات کی چغلی کھا رہے ہیں کہ تمہارا راستہ مکمل تباہی والا ہے۔
بہتیرے مکے دکھانے والے اور مظلوم کو وہاں سے مارنے والے کہ جہاں سے اسے پتا بھی نہ چلے کیا ہوئے وہ جن کو درجن بار منتخب کرنے کا ارادہ تمہارے عقابوں نے باندھ رکھا تھا آج کہاں ہیں مگر تم سے پہلے کب کس نے اصلاح لی کہ تم لو گے تم دور دیش کو اپنی قلب و ذہن میں ڈالے اور انہی کو سنبھالے ہوئے ہو انہی کی آشیرباد ہے انہی۔ کی شے ہے انہی کا کلہ ہے جو یہ سارا ناچ جاری ہے لیکن آخر کب تک کہاں تک۔ تمہیں اطمینان دلانے مہان بنانے اور مسیحا بتلانے والے یہ خدمت بہتیروں کیلئے سر انجام دے چکے وہ آج تمہارے لئے آپے سے باہر ہو جاتے ہیں وقت پڑنے پر اندر ہو جائیں گے۔
اے حاکم نابینا نجات کی صورت خلق خدا کی داد رسی ہے جس کی تمہیں توفیق ہی نہیں اور خدا ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا اپوزیشن سے نہیں خدا کی پکڑ سے خوف کھا ہی لو رعونت ترک کر دو مان لو کہ اہل حکمت کے نزدیک درحقیقت تم ایک چھٹانک برابر بھی نہیں تو یہ من من بھر کی باتیں ترک کر دو اور کروا دو کہ یہ اس قوم پر احسان عظیم ہو گا تم کسی کو بھی مت چھوڑو مگر اپنی نااہلی کے اعتراف کے بعد اس قوم کی جان چھوڑ دو کہ تمہاری رعونت پر خاک عنقریب پڑنے والی ہے۔۔
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں