Mizaj
مزاج
ہماری قوم کا مزاج بہت عجیب ہے ہم ایڈوینچرز کے دلدادہ لوگ ہیں بہت جلد اکتا جاتے ہیں ہم تبدیلی کے رسیا ہیں تبدیلی والے نہیں تھے تب سے ہمیں تبدیلی راس ہے ہمیں تبدیلی سے بے پناہ محبت تب بھی تھی اب بھی ہے مگر یہ شوق تبدیلی کبھی بھی مثبت نہیں رہا یہ خیر کا سبب اور فلاح و آسانی کا زریعہ نہیں بنا۔ ایک زمانے میں صدر پاکستان نام کے اعزازی سربراہ مملکت نہیں ہوا کرتے تھے تب لوگ انہیں صرف 23مارچ کو ہی نہیں دیکھا کرتے تھے اس وقت وہ بیک جنبش قلم اسمبلی کو تحلیل کرنے کے ہتھیار سے لیس ایک مضبوط و مشہور شخصیت ہوا کرتے تھے مگر پھر اہل جمہور نے ان میں سے یہ زہر نکال دیا اور پارلیمنٹ پر لٹکتی اس تلوار کو کوئی اور ساتھ لے گیا۔مگر عامتہ الناس اور کچھ خاصان کی خوئے تبدیلی کہیں نہیں گئی۔
اکیسویں صدی کے آغاز پر بھی ماشاء اللہ ملک عزیز پر مارشل لاء مسلط تھا خدا خدا کر کے اس کا خاتمہ ہوا تو تاریخ میں پہلی مرتبہ اسمبلی نے مدت پوری کی مگر اس مدت کی تکمیل کے دوران قوم کی تبدیلی کی خواہش پورے شدومد سے بیدار ہوتی رہی جو وزیر اعظم کی تبدیلی تک محدود رہی اور اسمبلی خفیہ تلوار یا لاٹھی سے ہانک کر گھر نہیں بھیجی گئی2013سے اٹھارہ تک کی حکومت ایک کامیاب حکومت تھی جس نے پچھلی حکومت کے چھوڑے مسائل خاص طور دہشت گردی اور انرجی کرائسس کو قابو کیا مہنگائی اور بیروزگاری کو بڑی حد تک لگام ڈالی صحت تعلیم اور ترقیاتی شعبے میں کام کیا، سی پیک جیسے بڑے اور اہم معاہدے پر کام شروع کیا اور معاشی شرح نمو کو تاریخی بلندی دی لیکن اس مرتبہ بھی قوم کا شوق تبدیلی گرمانے موجودہ حکمرانوں نے اپنا کردار پوری محنت سے ادا کیا حکمرانوں کو گالم گلوچ طنز و تشیع اور بہتانوں کا بہترین نشانہ بنا کر ایک نئی رسم بھی ڈالی جو پہلے دیکھنے کو نہیں ملتی تھی۔
اس مرتبہ حکومت بننے کے فوری بعد ہی اسے گھر بھیجنے کی خواہش تبدیلی کیلئے 126روزہ تربیتی اجتماع بھی منعقد ہوا جس میں روزانہ کے خطبات میں متعارف کئیے گئے طرز سیاست و حکومت کی بنیاد ڈالی گئی۔ شرکا کو بلند آواز میں باقاعدہ جھوٹ بول کر خود بھی ایسا کرنے کی تعلیم دی گئی۔ گالم گلوچ کو قومی تہذیب کا درجہ دیا گیا۔ مخالفین کوالزامات اور تضحیک کے زریعے زچ کر کے ناکارہ بنانے کا ٹاسک سونپا گیا۔ بنے بنائے ماحول میں جناب صدر سے اسمبلی توڑنے کا اختیار واپس لینے پر خائف خفیہ تلوار نے بھی اپنا کام دکھایا اور وزیراعظم صاحب رخصت ہوئے اور دوسرے نے آ کے اسمبلی کی مدت پوری کروائی۔
اب کے بار تبدیلی کے نعرے والے خود اقتدار میں ہیں اور مکافات عمل کا سخت شکار بھی قوم کا فوری تبدیلی کا مزاج باقی ہے اور اس میں شدت موجودہ حالات بالخصوص ہوشرباء مہنگائی نے پیدا کر دی ہے تمام اپوزیشن قومی مزاج اور بدترین حالات کا بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اہم ترین سوال یہی ہے کہ ایک وزیراعظم ہی اپنی حکومت کی مدت پوری کرے گا یا بزریعہ ہلالہ پانچ سال پورے کروائے جائیں گے یا مدت سے بہت پہلے یہ تبدیلی کی ہنڈیا بیچ چوراہے ہی پھٹ جائے گی، اس کا فیصلہ بہرحال قومی مزاج کی قدر کے ساتھ فرشتوں کی نصرت سے مشروط ہے۔