1.  Home/
  2. Blog/
  3. Immad Abbasi/
  4. Kaptan Aur Riyasat e Madina

Kaptan Aur Riyasat e Madina

کپتان اور ریاست مدینہ

پاکستان میں ذہنی صحت کے مسائل کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک کرکٹر نے ریٹائرمنٹ کے بعد حکمرانی اور کار سیاست میں قدم رکھا ایک نقطہ نظر کے مطابق اس کی بطور کرکٹر اور ورلڈ کپ کے فاتح کپتان کے طور پرورشش ہی مغرب نے کی تھی جس کا مقصد وقت مقررہ پر ملک میں انارکی قیاس خانہ جنگی سے اسے تباہ کرنا تھا۔

اس کپتان کو بالآخر مسند نشیں کیا جانا 2018کے ایک متنازعہ الیکشن میں طے ہوا جس سے پہلے ایک منتخب وزیراعظم کو ایک مصنوعی کیس یعنی اقامہ پر نااہلی اور پھر جیل بھجوانا تھا۔اپوزیشن کے تمام بڑے ناموں کو سیاست سے باہر رکھا گیا تھا اور کسی بھی اپوزیشن جماعت نے اس الیکشن اور حکمرانی کو پہلے دن سے ہی ناجائز سلیکٹڈ اور ملک دشمنی قرار دیا گیا تھا۔

اس کپتان کی کی وزارت اعظمی والی انتخابی مہم پاکستانی ماحول اور مزاج سے بالکل جدا تھی عجلت اور ایک ایک دن میں بیسیوں مختصر اجتماعات سے خطاب دعوے اور نعرے جیسے بس الیکشن کی تاریخ ہی پر پہنچنا ہو۔نعرہ اس نے دلفریب اور عوام کا من چاہا ہی لگایا یعنی ہر بات میں ریاست مدینہ کا تزکرہ رسول خدا کی باتیں اصحاب رسول کی مثالیں ایک درگاہ پر ماتھا ٹیکنے سے درگاہ کے متولیوں کے خاندان میں ایک شادی شدہ خاتون سے طلاق کروا کے شادی ہاتھ میں تسبیح اور پاؤں میں موٹی پشاور چپل۔

مگر عمل ہمیشہ اس کے برعکس ہمیشہ کہتا کہ ریاست مدینہ میں ایک کتے کے پیاسے مرنے کا زمہ بھی حاکم وقت پر ہے مگر خود انسانوں کے پتنگوں کی طرح مرنے پر بھی کبھی کان پر جوں تک نہ رینگتی۔پہلے ہمیشہ اس کا ماننا یہی تھا کہ ملک کے مشہور اور مستند قرض خواہ یعنی آئی ایم ایف سے کوئی قرضہ نہیں مانگا جائے گا لیکن اس نے خودتین برس میں گزشتہ بہتر برس کے حکمرانوں سے زیادہ ملک کو مقروض کر دیا۔

اس کی مجوزہ ریاست مدینہ میں ہر جرم ہر قباحت توہم پرستی بے شرمی بے حیائی گالم گلوچ الزام تراشی بدتہذیبی ہمیشہ عرج پر رہی،بھنگ کی کاشت مرغی بکری جیسی عمومی نوعیت کی بات سے نشوئی اور عام آدمی کے کان ہمیشہ خوش رہے اس کے دعوے کے برعکس اس کے کاسے میں موجود نام نہاد لقمان و سقراط آتے مال بناتے اور جاتے رہے مگر غریب کا چولہا ٹھنڈے ہوتے خاک ہی رہ گیا خودکشیاں ماں کے کے ہاتھوں بچوں اور باپ کے ہاتھوں خاندان دنیا سے جاتے رہے مگر اس کی تقریر برابر جاری رہ اس کی خواہش شاید بار بار ٹی وی پر جلوہ گر ہونا ہی تھی جو اس نے خوب پوری کی۔

عصمتوں کی تباہی اقدار پر خود کش دھماکے منہ سے گولہ باری حریف کی پگڑی چادر چار دیواری کے تقدس کی پامالی مولوی کو گالی دین کو ڈھال بنانے کا کمال اسی کپتان ہی کو حاصل رہے گا کہ اس نے ان کاموں میں کسی اور کے کرنے کو کچھ بھی نہیں چھوڑا۔اس کے سنہری دور کا دعویٰ ایک کروڑ نوکریاں پچاس لاکھ گھر تھا مگر اس بے بنیاد اور بے معنی دعوے پر بھی کان خوش ہوئے اور کسی نشے کے زیر اثر بدمست پیروکاروں نے اتنا سوچنا بھی گوارا نہیں کیا کہ کون سی کرامت سے وہ یہ کار ناممکن ممکن کر دکھائے گا۔

بھوک بیروزگاری جہالت اس دور میں خوب پروان چڑھی مگر فاقہ کشوں کو یہ پھر ریاست مدینہ ریاست مدینہ کی تکرار میں الجھا کر خود دور جہالت کی عیاشیوں بلکہ بدمعاشیاں میں لگا رہا۔اس کی کابینہ میں کوئی ایک بھی معقول باکردار عمل کا مسلمان راست گو یا مذہب کا چہرہ شامل نہیں تھا تمام اہل مغرب کے پروردہ جہالت کے ڈھنڈورچی توہم پرست مال واسباب جمع کرنے کے خوگر تھے ملک مملکت دین دھرم جن کی ترجیح کبھی تھی ہی نہیں۔

جب اقتدار کی کشتی ڈولنے لگی تو ڈھونڈ ڈھونڈ کے لائے بھی اگلے آستانوں کو پرواز کر گئیے اقتدار جاتا دیکھ کر پھر مذہب اور ریاست مدینہ کی تقریر بھٹو کی یاد امریکہ کا مخالف غلامی سے نجات دلانے والا اس کے سامنے ڈٹ کر کھڑا رہنے والا غیرت خودی اور خود مختاری کا پروفیسر اس کی لغویات پر رقصاں جہلاء اور زہنی معذور نے اس سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ آئی ایم ایف جس کے کہنے پر تم آٹا چینی گھی پیٹرول ادویات کا ریٹ آسمان تک پہنچا چکے جن کی دلدل میں تم اس ملک کے لوگوں کو دھکیل چکے وہ چیچوں کی ملیاں کی کوئی ماسی نہیں بلکہ اسی امریکہ ہی میں موجود انہی کا باجگزار ہے۔

سو اقتدار چھوٹتا دیکھ کر کسی اگلی بار کی محض امکانی ہوس اقتدار کیلیے آج مورخہ تین اپریل دو ہزار بائیس بھی چرب زبانی کذب بیانی سے اس ملک میں خانہ جنگی آئین شکنی خانہ جنگی اور تباہی کے ہی متمنی ہے مگر تمہارا وقت جا چکا ہے گو ملک میں ذہنی مسائل بہت ہیں عقل و خرد سے بیگانہ کانوں کو خوش رکھ کر مطمئن ہونے والے زعم اقتدار میں تمہھاری فضولیات پر رقصاں ہیں مگر ان کا نشہ بھی ہرن ہونے کو ہے کہ اب قدرت تمہارا محاسبہ کر چکی ہے تمہارا تم جیسے کسی کاذب کا یہاں آخری دور ہے کہ دنیا کی مقدس ترین معتبر ترین ریاست مدینہ جس کی بنیاد جناب رسالت پناہ نے رکھی اور جو تاقیامت مہذب ریاستوں کے لئیے نمونہ ہے تم نے اس کا مذاق اڑایا ہے اور خدا اس طرح کی دین فروشی کو کبھی معاف نہیں کرتا۔

نوٹ۔ یہ کالم تین اپریل بوقت سحر لکھا گیا امید قوی ہے کہ افطار تک عدم اعتماد کی تحریک سےاس فاشسٹ حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہو گا۔

Check Also

Shahbaz Ki Parwaz

By Tayeba Zia