Janab e Wazir Azam
جناب وزیراعظم
جناب وزیراعظم
وزارت اعظمی نہ ہوئی مزاق ہی ہوا اب اس عظیم منصب کی مصروفیات اور تقاضوں سے ہر کوئی تو شناسا نہیں نہ سبھی ہو سکتے ہیں، اب کون وقت ضائع کرے مخالفوں کو سمجھانے میں خاص طور پر موجودہ وزیراعظم تو آتے ہی قومی خدمت میں مصروف ہو گئے تھے، تاحال فرصت میسر ہی نہیں انہوں نے اپنی ذات ملک و قوم کیلئے وقف کر رکھی ہے۔ کسی چور اچکے کو نہیں چھوڑیں گے معاون محسن پاکستان بعد از 2018جناب جہانگیر ترین عامر محمود کیانی مخدوم خسرو بختیار اور چوہدری پرویز الٰہی جیسے زیرک اور صادق و امین راہنماؤں کے ساتھ مشورے میں ہوتے ہوئے اس ملک کو وہ جلد کرپشن اور کرپٹ لوگوں سے پاک کر لیں گے مگر قومی مفاد سے نابلد لوگوں کو کیا پتا کہ اس کی اہمیت کیا ہو گی اس کے فوائد فواد چوہدری اور مراد سعید جیسے محب وطن صاحبان ہی سمجھ سکتے ہیں۔
بلوچستان میں المیہ گزرا جناب وزیر اعظم نے افسوس بھی کیا سرکاری مدد بھی کر دینی تھی مگر لواحقین میتیں رکھ کر بیٹھ گئے۔ اب کوئی بتائے کہ جناب وزیراعظم کوئی گورکن تھوڑی ہیں۔ انہوں نے خود بھی برا منایا کہ اس کام کیلئے میں نہیں جا سکتا مگر اپوزیشن کے لوگوں کے پاس تو بہت وقت ہے اور مریم مولانا اور بلاول تو جھٹ وہاں پہنچے گور کن تو کبھی یہ بھی نہیں رہے، مگر ان کے پاس وقت بہت ہے سیاست کرنے کا ان لوگوں کو سمجھا سکتے تھے کہ جو ہو گیا سو ہو گیا مگر انہوں نے تو اور ہی بھڑکایا۔
پھر جناب وزیراعظم نے بھی منوائی اپنی ہی کوئٹہ گئے اور غیر محفوظ علاقے میں رہنے والوں کو محفوظ جگہ طلب کر کے ان سے تعزیت کی انہیں تسلی دی۔ جناب وزیراعظم نے اس بات پر تسلی کا اظہار کیا ہے کہ ان کے کامیاب دورے نے اپوزیشن والوں کا منہ بند کر دیا ہے۔
اور بھلا وزیر اعظمکوئٹہ کیوں نہ جاتے لوگوں کو پتا ہے کہ اپوزیشن والے، NROکے بھوکے ہیں اور انہوں نے 500بار کہا کہ میں این آر او کسی کو نہیں دوں گا اب وہ اپنی بات کے پکے ہیں ان کی انگریزی کی مثال دنیا دیتی ہے، ہینڈسم وہ سب سے بڑھ کر ہیں پرچی سے دیکھ کر کبھی تقریر نہیں کی تو وہ ان کرپٹ لوگوں کو کیسے این آر او دیں جو صرف میٹرو بس اور ٹرین چلا کر ملک برباد کرتے رہے لمبی لمبی سڑکوں پر قوم کا پیسہ ضائع کیا اور سی پیک پر خوشیاں مناتے رہے۔
اور سچی بات ہے ایٹم بم کے دھماکے بھی کوئی اچھی بات نہیں تھی ایک تو یہ انسانیت کیلئے خطرہ ہے اور دوسرا اسے چارج کرنے پر بجلی بھی بہت لگتی ہے اسی لئے چند دن پہلے پورے ملک میں بجلی بند کرنی پڑی تھی اور اس سے جو لوگوں کے گرنے پڑنے اور برتن ٹوٹنے کا نقصان ہوا وہ علیحدہ اور جو نازک دل ٹوٹے ہوں گے ان کی بد دعا بھی لگ سکتی ہے۔
بات ہو رہی تھی کہ وزیراعظم فوتگیوں کے پہلے دن ہی چلے جاتے انہوں نے کونسا Uber بک کروانی تھی خیر سے ان کے پاس جہازوں اور گاڑیوں کی کمی نہیں تھی مگر اندر کی خبر یہ ہے کہ بہت حساس معاملہ تھا جس کی وجہ سے جناب وزیراعظم اسی دن کوئٹہ نہیں گئے اب جو لوگ افواہیں اڑا رہے ہیں کہ انہیں خاص روحانی شخصیت نے جانے نہیں دیا تو وہ حاسد ہیں اور جناب وزیراعظم کے ان کرپٹ مخالفوں کا منہ بند کرنے کیلئے اس اہم راز سے پردہ اٹھانا ضروری ہوا۔
واقعہ یوں ہے کہ جناب وزیر اعظم نے کسی کو بھی NRO نہ دینے کی پکی قسم اٹھائی ہوئی ہے وزیر اعظم ہاؤس سے وہ این آر او کہیں گم ہو گیا ہے اسی کو ڈھونڈنے کےلئیے دم درود وظیفہ اور جاسوسی بھی جاری تھی کہ اگر این آر او کسی ندیدے اے پی ڈی ایم والے کے ہاتھ لگ گیا تو اس قوم کا ستیا ناس ہو جائے گا بس یہ وجہ تھی کہ وہ نہیں جا سکے بات کا بتنگڑ بنانا تو مولانا مریم اور بلاول کی پرانی عادت ہے ان کو پتا کسی بات کا ہوتا نہیں اور شہر شہر واویلا مچائے پھرتے ہیں اگر چہ ابھی تک جناب وزیر اعظم کو NRO واپس نہیں ملا لیکن اگر واپس مل بھی گیا تو کسی کو بھی نہیں دیں گے جناب وزیراعظم بات کے پکے ہیں۔