Abba Ji
ابا جی
کہنے کو بات سخت ہے لوگ شاید برا منائیں لیکن ابا جی بیکار آدمی تھے۔ پرانے پاکستان کے باسی اور پرانے ہی میں فوت ہو گئے۔ ان کی باتوں ان کے افکار کو نئے پاکستان میں بھلا کیسے ساتھ گھسیٹا جا سکتا تھا وہ رجعت پسند اور پرانے پاکستان کے شہری تھے۔ ان کی دنیا عجیب سی دنیا تھی بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ شاعری ہی کی نظر کر دی جائے عام لوگوں کی طرح عام انداز سے گزار دی جائے واہ واہ اور دادو تحسین کیلئے وقف رکھی جائے اور پھر نظریات کا نام رکھ کر عہدے منصب والوں سے تادم آخری بگاڑ کے ہی رکھی جائے۔
ایک تو مخالفانہ اور باغیانہ شاعری اوپر سے جاہل بے شعور غریبوں سے واہ واہ کی طلب میں اعلی ترین عہدے والوں کو خاطر میں نہ رکھنا کہاں کی دانشمندی تھی؟ ابا جی نے بڑے جبے دستار والوں کی کبھی عزت نہیں کی اور کردار کے پیچھے بھاگتے زندگی ہار گئے، اتنے بڑے اعلی اعزازات کو جمہوریت کیلئے ٹھکرانا اور آمریت کی مخالفت میں اپنے خاندان کی خوشیوں کو تج دینا کہاں کا انصاف تھا؟ ابا جی ماشاءاللہ باصلاحیت تھے وزارت لے سکتے تھے امارت میں کہیں زیادہ آگے جا سکتے تھےمگر انہیں اس سب سے کیا غرض تھی نہ ہماری پرواہ نہ ہمارے شاندار مستقبل کی فکر ہی ان کو لاحق ہوئی۔
نئے پاکستان میں نئی سوچ اور نئے انداز کے ساتھ جینے کیلئے میں نے ابا جی کی راہ ترک کر دی تھی ابا جی کسی کپتان کو مانتے ہی نہیں تھے۔ میں نے کپتان کی مان لی اور ویژن کو اپنا لیا اپنا مقام پا لیا عظمت رفتہ ابا کے وقت کی بیکار سی چیز ہے میں نے عظمت موجودہ اور آمدہ کو چنا ہے مجھے کسی نے نہیں چنا تھا مگر میری صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے مجھے چنے ہوئے لوگوں سے چنوا لیا گیا اللہ کا شکر ہے ہوٹر ہے پروٹوکول ہے میرے لئیے شاہراہیں کشادہ ہیں بڑے محلات اور آسائشیں ہیں۔ تمام مقتدر مجھ سے ہمہ وقت رابطے میں رہتے ہیں میرا کام بھی میرے مزاج کے مطابق ہے ابا نے زبان دان تو بنا ہی دیا تھا۔ باتیں کرنی ہوتی ہیں بیان دینے ہوتے ہیں کہیں مہمان خصوصی بننا پڑتا ہے یا پھر مخالفین کو کھری کھری سنانی ہوتی ہیں اور اس سب کے بدلے مجھے عالم جانتا ہے۔
ہر روز اخبارات میری بات کو نمایاں طور پر شائع کرتے ہیں چینلز پر میرا بیان ترجیحی بنیادوں پر نشر کیا جاتاہے وزیر معاونین تک میری خوشنودی میں لگے ہوتے ہیں اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے بہت نواز رکھا ہے اور جو بہت اچھا ہوگا وہ یہ کہ میرا بیٹا میری طرح محض ایک شاعر کا بیٹا نہیں ہوگا وہ ایک وزیر صاحب کا بیٹا کہلائے گا اور خود بھی ضرور وزیر بنے گا میں اسے شاعروں سے یوں بھی دور رکھتا ہوں خاص کر ایسے شعر لکھنے والے شاعروں سے ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں کہ جن کو پڑھ کے بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں۔