Zara Si Mukhtalif Khush Hali
ذرا سی مختلف خوشحالی

غالب نے کہا تھا:
سبزہ کوجب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا روئے آب پر کائی
غالب غالباً، کائی کےصرف نام سے آگاہ تھے، خواص سے نہیں۔ ورنہ انہیں کبھی یہ نہ کہنا پڑتا۔
قرض کی پیتےتھےمے، لیکن سمجھتےتھےکہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری، فاقہ مستی ایک دن
اردو میں لفظ کائی، الجی algaeکے لیے بھی مستعمل ہے اور ہم خوب جانتے ہیں کہ، الجی جانداروں کی وہ قسم ہے جو پودوں کی طرح سبز ہوتی ہے، فوٹو سینتھیسز کے ذریعہ سے سورج کی روشنی کی مدد سے اپنی خوراک تیار کرتی ہے، مگر پودا نہیں ہوتی۔ ان کے پتے نہیں ہوتے اور نہ ہی ان پر پھول لگتے ہیں۔
الجی ہماری کائنات میں بہت ہی اہم کردار کے حامل جاندار ہیں۔ بلکہ ہم اگر یوں کہیں کہ، اس کائنات کے نظام حیات کا بیشتر بوجھ اس مخلوق نے اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا رکھا ہے، تو غلط نہ ہوگا۔ جس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ کہ، کرہ ارض کی قریب پچیس فیصد آکسیجن یہی بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم سانس لینے یا ایندھن جلانے سے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتے ہیں، اس کا بڑا حصہ یعنی قریب ایک کروڑ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ، روزانہ استعمال کرکے ہمارے کُرے کی "گلوبل وارمنگ" کی رفتار کو آہستہ کیے ہوئے ہیں۔
الجی کی لاکھوں اقسام ہیں۔ صرف امریکی قومی ادارہ نیشنل میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے خشک پودوں کے سیکشن، (herbarium) میں الجی کی تین لاکھ بیس ہزار اقسام محفوظ ہیں۔ الجی کی بہت سی اقسام بہت زیادہ معاشی اہمیت کی حامل ہیں، جیسا کہ پچھلے مضمون میں ہم نے کیٹونی کے متعلق جانا تھا کہ، اس کی اربوں ڈالرکی پیداوار اور فروخت ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک اور قسم جسے "ہیمیٹو کوکس پلیویالس"، (Haematococcus pluvialis) یا ایچ پلیویالس(H. Pluvialis) کہا جاتا ہے۔ پچھلے کچھ سال سے بہت زیادہ معاشی اہمیت اختیار کرگئی ہے۔
ایچ پلیویالس یک خلوی الجی ہے۔ جس کی باقاعدہ فارمنگ کی جاتی ہے۔ اس کی کچھ مقدار کو مناسب کھاد اور دیگر کیمیائی اجزاء لیے ہوئے پانی میں ڈال کر، شیشے کی نالیوں سےبنے "فوٹو بائیوری ایکٹر" (Photobioreactor) میں ڈال کر دھوپ میں رکھ دیا جاتا ہے۔ اس ری ایکٹر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مناسب مقدار ہر وقت مہیا کی جاتی ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ، پانی اور پانی میں موجود ضروری کیمیائی اجزاء سے، سورج کی روشنی میں یہ الجی بڑی تیز رفتاری سے بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔ اس وقت اس کا رنگ سبز ہوتا ہے۔
جب ایک خاص حد تک پانی میں اس کی مقدار جمع ہوجاتی ہے، تو دھوپ کے زیر ِاثر اس میں ایک کیمیائی مادہ (astaxanthin) آسٹا زینتھین بننا شروع ہوجاتا ہے۔ کچھ دن میں فوٹو بائیو ری ایکٹر میں موجود تمام ایچ پلیویالس کا رنگ گہرا سرخ ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر اسے پانی سے فلٹر کرکے، نکال کر پانی میں نیا بیج ڈال دیا جاتا ہے، جبکہ حاصل شدہ ایچ پلیویالس کو خشک کرکے آسٹازینتھین کی تیاری کے لئے بھیج دیتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل تک اسرائیل کی کمپنی الجا ٹیکنالوجی Alga technologies، ایچ پلیویالس پیدا کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی تھی۔ لیکن اب چین کے صوبے یونان میں دنیا کا سب بڑا فارم بنادیاگیا ہے۔ جس میں سالانہ تین ٹن آسٹا زینتھین کیلئے خام مال مہیا کرنے کی استعداد موجود ہے۔ یاد رہے کہ، ایک کلوگرام آسٹازینتھین کی قیمت دس ہزار ڈالر اور پاکستانی روپوں میں تقریباً اٹھارہ لاکھ روپے ہے۔
آسٹازینتھین اب تک دریافت ہونے والا سب سے زیادہ طاقتور قدرتی اینٹی آکسیڈنٹ ہے۔ جو انسان میں عمر کے ساتھ ہونے والی شکست وریخت کی رفتار کو آہستہ کرکے بڑھاپے کو دور رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ جِلد کی جُھریوں اور نظر کی کمزوری کو رفع کرتا ہے۔ کینسر کے خلیات کو بننے سے روکنے میں مدد کرتا ہے۔ پٹھوں اور عضلات کی طاقت بحال کرواتا ہے۔ اپنی ان اور دیگر بےحد مفید خصوصیات کی بدولت آسٹازینتھین، اوربالواسطہ طور پر ایچ پلیویالس کی مانگ میں زبردست اضافہ ہورہا ہے۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ، اس کی طلب اس کی پیداوار سے کہیں زیادہ ہے۔
ہماری سینکڑوں جامعات میں ہزاروں نوجوان مائیکرو بیالوجی پڑھتے ہیں، نہیں معلوم ہماری جامعات ایسے معاشی اہمیت کے پراجیکٹ پر کام کی رفتار کیوں آہستہ ہے۔ مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ، بیشتر طلباء صرف خانہ پری کےلیے بارہا پہلے سے کیے گئے پراجیکٹس لیکر، ان کو ری پروڈیوس کرکے ڈگری حاصل کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ اور پھر ڈگری لیکر سالہا سال نوکری کے متلاشی رہتے ہیں۔ حالانکہ آسٹازینتھین سےایسے سینکڑوں مرکبات بنائے اور بیچے جاسکتے ہیں، جن کا فقط ایک کلوگرام ہی بہت سے پروفیشنلز کی سال بھر کی تنخواہ سے بھی زیادہ قیمت کا حامل ہوتا ہے۔
خوشحال پاکستان کا سنہرا سپنا زیادہ دشوار نہیں، اگر ہر شعبے کے لوگ اپنے میدان میں شوق کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیتے ہوئے نئی اشیاء پر کام کریں۔

