X-Ray
ایکس رے
ایکسرے فلم دورِ حاضر کی طبی سائنس کا لازمی جزو گردانا جاتا ہے اور ہم میں سے کم وبیش ہر ایک کبھی نہ کبھی ایکسرے کروانے کے تجربہ سے گذرا ہو گا، جس عضو کا ایکسرے مقصود ہو اس پر آپریٹر عام بلب کی روشنی ایک خاص ڈھب سے ڈالتا ہے اور مشین کے پرزوں کو آگے پیچھے حرکت دے کر مطلوبہ مقام کو فوکس کرتا ہے اور جونہی اس کی تسلی ہوتی ہے ایک مخصوص بٹن دبا کر معینہ مدت کے لیے مجوزہ تکثیر کی ایکس ریز جسم میں داخل کر کے مطلوبہ معیار کی فلم حاصل کر لیتا ہے۔
میرا ایسا ماننا ہے کہ بالکل اسی طور اللہ کریم ایک عام بلب کی روشنی گویا نظرِ نگرانی اپنے بندوں پہ ہمہ وقت ڈالتے رہتے ہیں جس سے بندہ کی حرکات وسکنات، اعمالِ صالح و بد اور افکار و خیالات سے متعلق ہر قسم کی معلومات اللہ کریم کی لا متناہی یاداشت میں جمع ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن جونہی بندہ اللہ کی بارگاہ میں متوجہ ہوتا ہے یعنی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے یا اذکارو ثنایا دعا کے ذریعہ اللہ کی طرف دھیان کرتا ہے جھٹ سے ایکس ریز کی مانند اللہ کی نظرِ خاص یا نظرِ رحمت کا شٹر کھل جاتا ہے اور جتنا عرصہ بندہ اللہ کی بارگاہ میں متوجہ اور حاضر رہتا ہے نگاہِ رحمت یا نور کی یہ بارش جاری رہتی ہے اور قلب وذہن میں ذخیرہ ہو کر روح کو منور کرتی رہتی ہے۔
اس نور کے جذب کی مقدار و معیار کا انحصار عبادت و ذکر کی قسم اور دورانیہ، وجودِخالق پر مرکوز توجہ اور کیفیت اور دن یا رات کے وقت وغیرہ پر ہوتا ہے حضرات عالی مرتبت، بالیقین قلب وذہن کا یہ ذخیرہ نور ہی وہ گوہرِ نایاب ہے۔ کہ جس کی مقدار اور معیار اولیا کے مقام کا تعین کرتی ہے اور یہی وہ گوہر مقصود ہے کہ جس کے حصول کی سعی و آرزو میں راہیانِ راہِ سلوک پہروں تصورِ جاناں کیے محو مراقبہ رہتے ہیں۔ اور یہی حدف لیکر رسولِ رحمت قبل از وحی غارِ حرا میں قیام پذیر ہوا کرتے تھے۔
ہم عامیوں کیلیے بھی بارگاہِ ایزدی میں محوِ نماز یا دعا میں گذارے لمحوں سے حاصل ذخیرہ نور کی خاص وقعت ہے یہ براہِ راست ہمارے ظرف میں اضافہ کا باعث ہے۔ گویا جتنا کوئی شخص عبادت گذار ہے اتنا ہی اعلیٰ ظرف، اعلیٰ ظرفی انسان کی سب سے خوبصورت صفت ہے جو بیک وقت اسے فکر کی گہرائی اور گیرائی، وسیع القلبی، حلمِ طبع، مضبوطیِ اعصاب، عاجزی، برداشت، قناعت، معاملہ فہمی اور ناگہانی صورت حال کا بطریقِ احسن سامنا کرنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔
اس کے بر عکس جو شخص عبادات و اذکار سے جتنا اغماض برتتا ہے وہ۔ اتنا ہی کم ظرف ہوتا ہے نتیجتاً اپنی دولت یا مرتبہ پہ بے جا گھمنڈ، اپنے سے کمتر کی تذلیل، بات بے بات بڑھکنا، چھوٹے بڑے کی تمیز کے بغیر لوگوں کو بے نقط سنانا، دشنام طرازی اور گالم گلوچ ایسی رذیل عادات میں مبتلا ہوتا ہے۔ اور گالی گلوچ تو بطور خاص کم ظرفی، ضعفِ طبع اور فکرِ سطحی کی غمازی کرتی ہے۔ کیونکہ یقینی طور پر کسی انسان کی توہین و ترذیل سے طمانیت اور انا کی تسکین حاصل کرنے والا کسی طور مضبوط اعصاب کا مالک اور بلند فکر تو ہر گز نہیں ہو سکتا۔ اللہ کریم کا فرمان ہے سورۃ الحجرات، ایمان لانے کے بعد سب سے بڑا گناہ لوگوں کوبرے ناموں سے پکارنا ہے۔ اسی طرح ارشادِ رسول ہے
مومن کو گالی دینا فسق اور قتل کرنا کفر ہے۔ لیکن اگر اس حدیثِ مبارکہ کی درست توضیح کی جائے
المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ
"مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں"
تو دشنام طرازی سے دوسروں کی ایذا رسانی کرنے والا کوتاہ فکر کفر اور ایمان کی سرحد پہ کھڑا دکھائی دیتا ہے۔
آئیں دوستو آج ہم اپنا ایکسرے کریں کہ ہم ظرف کے کس زینے پہ کھڑے ہیں، کہیں خدانخواستہ ہم تو کثرتِ دشنام طرازی کے باعث کفر وایمان کی سرحد تو نہیں بھٹک رہے اگر نہیں تو شکر کریں اگر بصورتِ دیگر ہے تو استغفار بڑھائیں کہ ایک صحابی نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے اپنی بد کلامی کی شکایت کی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا آپ سے استغفار کہاں کھو گیا؟ میں روزانہ سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔
تو گویا دشنام طرازی، فحش گوئی اوربدکلامی کا علاج روزانہ سو مرتبہ استغفار کرنا ہے۔